بچے جہاں والدین کے لیے باعث مسرت ہوتے ہیں وہیں ان کے مسائل والدین کو پریشانیوں کے گرداب میں پھنسادیتے ہیں اور بچوں کی محبت میں گم والدین رہنمائی کے اصولوں کو محبت اور دوستی میں ضم کردیتے ہیں اور اس چکر میں بچوں کی صحیح تربیت ممکن نہیں ہو پاتی اور وہ اپنے صحیح مدار سے ہٹ جاتے ہیں۔ اس میں شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ بچوں کے نفسیاتی مسائل میں زیادہ حصہ والدین کا عطا کردہ ہوتا ہے۔
دیکھا جاتا ہے بچے ضدی ہوجاتے ہیں۔ غصہ کرتے ہیں محفلوں سے یا لوگوں سے گھبراتے ہیں اکثر خاموش رہتے ہیں۔ روتے ہیں۔ والدین پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔
اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں۔ مایوسی کے بھنور میں ڈوب جاتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں خواب میں ڈرجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان سب اور ان سے ملتے جلتے سب مسائل کا حل مشکل ہرگز نہیں لیکن محنت طلب ضرور ہے۔
آپ کے بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے اگر آپ ہر اچھے کام پر اس کی حوصلہ افزائی کریں۔۔۔ شاباش اور انعام دیں۔ بچے پر اعتماد کریں اور ہر وقت کے ۔ پہرے نہ لگائیں بچے غلطیاں کریں گے تو سیکھیں گے۔ غلطیاں کرنے پر اگر آپ چیخیں، چلائیں گے تو بچہ خود کو اکیلا اور بھکرا ہوا محسوس کرے گا۔ جن باتوں کی بچوں کو تعلیم دیں ان پہ خود بھی عمل کریں۔ بچے کو جنوں، بھوتوں کی کہانیاں سنائیں گے یا کسی اور چیز سے ڈرائیں گے تو لامحالہ طورپر آپ اس کی ایک بزدل شخصیت بنا رہے ہیں۔ اس لیے بہت ضرورت ہے کہ آپ اسے بہادر لوگوں کی باتیں سنا کے ایک مضبوط انسان بنائیں۔ دوسری خصوصاً مہمانوں اور بچے کے دوستوں کے ساتھ اس کے ساتھ مارپیٹ نہ کریں اور غلطیوں پر نہ ٹوکیں، اس سے وہ آپ سے بد ظن ہوگا۔ بلکہ اکیلے میں پیار سے مثالوں کے ذریعے اپنی بات سمجھائیں۔ دوسروں کے سامنے بچے کی تعریف کرنے سے وہ آپ پر فخر کرے گا اور اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ بچے کو کھیلنے کودنے سے نہ روکیں البتہ کھیل کود کو مخصوص وقت مقرر کردیں اور کوشش کریں کہ ان کی تفریح ٹی وی، کمپیوٹر سے نہ ہو، بچے کو چیزیں وقف کرنے کے ساتھ ساتھ شیئرنگ کی عادت ڈالیں اس سے اس میں وسعتِ قلبی پیدا ہوگی۔ بچوں سے ایسے بات نہ کریں کہ ’’جب میں تمہاری عمر کا تھا تو۔۔۔‘‘ کیوں کہ ہر دور کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور ہر بندہ مختلف صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ بچوں کے سوال فضول سہی لیکن ان کا تسلی بخش جواب ضرور دیں۔ ان کی بات کو ادھورا نہ چھوڑیں اس سے ان میں طمانیت پیدا ہوگی۔ بچے کو خواہشات اور ضروریات کا فرق سمجھائیں۔ بے جا خواہشات پوری کرکے آپ اس کو مستقبل میں ضدی، ہٹ دھرم اور باغی بچہ پائیں گے۔ لڑکا، لڑکی میں تفریق کرنے سے آپ ان میں مطلب بہن بھائیوں میں فاصلہ پیدا کریں گے اور بچیوں کو احساس کمتری میں مبتلا کریں گے اور بچے بھی احساسِ برتری میں مبتلا ہوکے اپنی من مانیاں کریں گے۔ بچے پر تنقید نرم الفاظ میں اور آہستہ لہجے میں کریں مگر تعریف زور دار اور بلند الفاظ کے ساتھ۔ بچوں کے ہاتھ سے کوئی نقصان وغیرہ مثلاً گلاس، پلیٹ گر کر ٹوٹ جائیں تو صبر کا مظاہرہ کریں اور پیار سے سمجھادیں۔ یاد رکھیں والدین کے آپس کے جھگڑوں سے متاثر ہونے والا پہلا شخص آپ کا بچہ ہے۔ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں اور مثلِ گل سختی سے پیش آنے پر پھر کبھی نہ جڑنے کے لیے ٹوٹ کے بکھر جاتے ہیں۔ بچوں کے دماغ بھی کورے کاغذ کی مانند۔۔۔ ہر بات نقش ہوجانے کے لیے۔۔۔ سو احتیاط علاج سے بہر حال بہتر!