’’مجھ میں کمی یہ ہے کہ مجھے ایسا وقت نہیں ملتا، ایسی دھوپ نہیں ملتی، ایسا لان نہیں ملتا کہ جہاں پر میں ہوں اور میرا پالن ہار، اور کچھ نہ کچھ اس سے بات ہو۔ عبادت اپنی جگہ، بلکل ٹھیک ہے لیکن اللہ خود فرماتا ہے کہ جب تم نماز ادا کر چکو پھر میرا ذکر کرو، لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے یا پہلو کے بل۔
لیکن آدمی ایسا مجبور ہے کہ وہ اس ذکر سے محروم رہ جاتا ہے۔
کبھی کبھی یہ سوچیں کہ اس وقت میرا اللہ کہاں ہے؟ کیسے ہے؟ شہ رگ کے پاس تو ہے مگر میں کیوں خالی خالی محسوس کرتا ہوں؟
تو پھر آپکو ایک حرکت، ایک وائبریشن محسوس ہوتی ہے۔
یہ بڑے مزے کی اور دلچسپ باتیں ہیں لیکن ہم اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ اس طرف جا ہی نہیں سکتے۔‘‘
(زاویہ سے اقتباس)
’’اماں کو باسی کھانے، پرانے ساگ،اترے ہوئے اچار اور ادھ کھائی روٹیاں بہت پسند تھیں. دراصل وہ رزق کی قدردان تھیں، شاہی دستر خوان کی بھوکی نہیں تھیں
میری چھوٹی آپا کئی مرتبہ خوف زدہ ہو کر اونچی آواز میں چیخا کرتیں!
" اماں حلیم نہ کھاؤ، پھول گیا ہے۔ بلبلے اٹھ رہے ہیں۔"
"یہ ٹکڑا پھینک دیں اماں، سارا جلا ہوا ہے۔"
" اس سالن کو مت کھائیں، کھٹی بو آرہی ہے"
"یہ امرود ہم نے پھینک دئے تھے، ان میں سے کیڑا نکلا تھا."
" لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں، اس سے جراثیم چمٹ گئے ہیں."
" اس کٹورے میں نہ پیئیں ، یہ باہر بھجوایا تھا۔"
لیکن اماں چھوٹی آپا کی خوف ناک للکاریوں کی پرواہ کئے بغیر مزے سے کھاتی چلی جاتیں۔ چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں اس لئے جراثیموں سے نہیں ڈرتی تھیں، صرف خدا سے ڈرتی تھیں ! ‘‘
(صبحانے فسانے ،عنوان اماں سردار بیگم ، صفحہ نمبر 15)
’’اس وقت ہم عذاب میں ہیں ۔ ہم کیا ساری دنیا عذاب میں ہے ۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے ؟ کارن کیا ہے ؟ اس وجہ کو ڈھونڈنے کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ دماغ بالکل ٹھیک ہے اور اپنی جگہ چوکس ہے ۔ فقط دل گھاٹے میں آ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنے مقام سے ہل گیا ہے ۔
آگہی اور جانکاری کسی علم سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ تجربے سے ملتی ہے ۔ وہ آنکھیں جو زندگی کی راہوں کو روشن کرتی ہیں وہ دماغ کی آنکھیں نہیں ہوتیں بلکہ دل کی آنکھیں ہوتی ہیں ۔ اگر دل اندھا ہے تو زندگی کی راہ تاریک ہی رہے گی اور ساری عمر اندھیرے میں گذر جائے گی ۔‘‘
(بابا صاحبا صفحہ607)