اس وقت دنیا میں جہاں اوربہت سے فتنے پھیل رہے ہیں وہاں ایک بہت بڑافتنہ خانقاہی نظام کے انکاراورسلوک وتصوف کی تردید کابھی ہے۔ حالانکہ سلوک وتصوف کا وجود قرآ ن وحدیث ،سیرتِ رسول اورآثارِ صحابہ سے ثابت ہے۔ مغربی اقوام نے جب اسلامی دنیاپر تسلط حاصل کیا تو انہوں نے ہمار ے نظام تعلیم کو تبدیل کیااوراپنانظام متعارف کرایا جو دین ودنیا کی تفریق پر مبنی ہے۔ جس میں دین کاکوئی حصہ نہیں۔ حالانکہ عالم اسلام میں بارہ تیرہ صدیوں تک درسگاہو ں میں اسلامی اورعصری علوم ساتھ پڑھائے جاتے تھے۔ ایسانہیں تھا کہ دینی مدرسے الگ ہوں اورعصری تعلیم کے اسکول الگ۔ ابتداء مکتب اورمسجد سے ہوتی تھی جہاں بچے ناظرہ ،حفظ اورضروری لکھنا پڑھنا سیکھ لیتے تھے۔اس کے بعد درسگاہوں میں دینی اورعصری علوم ایک ساتھ پڑھائے جاتے تھے ،تفسیر ،حدیث اورفقہ کے ساتھ ریاضی ،فلکیا ت اورسائنس بھی ہوتی تھی۔ بعد میں کسی فن میں اعلیٰ صلاحیت کے لیے طلبہ الگ الگ ماہرین فن کی خدمت میں ایک مدت گزاراکرتے تھے۔ اس طرح کوئی محدث بنتا،کوئی فقیہ اورکوئی سائنس دان۔استعماری طاقتوں نے نئے نظام تعلیم کے ذریعے دینی تعلیم کونکال دیااور نصاب تعلیم کوایسا بنایاکہ دین اوردنیا کی تفریق گہری ہوگئی اوریوں علماء طلبہ اوردین دارطبقے میں خلیج بڑھتی گئی۔
دوسراحملہ ان طاقتوں نے خانقاہی نظام پر کیا۔ اس کے لیے ایک طرف تو جعلی تصوف کو رواج دیا گیااور رسم ورواج و بدعات پر مبنی تصوف کی سرپرستی کی۔ اصل تصوف کی حوصلہ شکنی کی اور اس کے مشائخ کو بدنام کیا۔ ساتھ ہی تصوف کو ایک نظری علم کے طورپر متعارف کرایا،اسے صوفی ازم کانام دیاجس پر بڑی بڑی یونی ورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاتے ہیں اوراسناد ملتی ہیں۔ مگر ان کے حامل سنت کے مطابق شکل وصورت سے تک محروم ہوتے ہیں،بسااوقات فرض نماز سے بھی غافل ہوتے ہیں۔بعض اوقات ان کے عقائد تک درست نہیں ہوتے۔ تصوف پر وہ لمبی چوڑی تقریر ضرورکرسکتے ہیں مگر عمل کے لحاظ سے کچھ نہیں ہوتے۔
اصلی تصوف بزرگوں کی صحبت ،ا ن کی خدمت ،ان کی محبت وعقیدت اوران کی اطاعتسیحاصل ہوتاہے ۔ ۔صحابہ کرام کو جوبے مثال مقام امت میں ملاہے وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ہی کی برکت سے ملاہے ۔ ایک صحابی کاایک معمولی عمل امتی کی سالہاسال کی عبادت پر بھاری ہے۔کیونکہ انہیں شرفِ صحبت نصیب ہے۔ اسی لیے حدیث میں آتاہے کہ میرے صحابی کاایک مدیا ایک صاع صدقہ بعدوالوں کے احد پہاڑ کے برابرصدقہ کرنے سے افضل ہے۔یہ کیفیت صحبت سے نصیب ہوتی ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت صحابہ کے لیے ،صحابہ کی تابعین کے لیے ،تابعین کی تبع تابعین کے لیے ،ان کی بعدکے مشائخ کے لیے اسی طرح درجہ بدرجہ نافع اوراکسیر ثابت ہوئی ہے۔ اسی اصلاح اوراستفادے کے سلسلے کو تصوف کہاجاتاہے۔ اس سلسلے میں ذکر واشغال کی حیثیت دوسرے درجے کی ہے۔اصل چیز شیخ کی صحبت ہے۔ اس صحبت کے ساتھ عقیدت ،اطلاع اوراتباع ضروری ہے۔
آج کچھ لوگ خانقاہی نظام سے بالکل غافل ہیں۔بلکہ بہت سے لوگ اس کے فوائد پریقین ہی نہیں رکھتے۔بہت سے ایسے بھی ہیں جوکہتے ہیں کہ خانقاہوں میں جاکر دیکھ لیا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ استفاد ے کی شرائط پوری نہیں کی جاتیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شیخ خودکسی متبعِ سنت بزرگ کاصحبت یافتہ اورمجاز ہو۔ اسلامی تعلیمات کابخوبی علم رکھتا ہو ،اوران پر عمل بھی کرتا ہو۔سنت کاپابند ہو۔اگرشیخ ہی سنت کے خلاف چلتا ہو(جیساکہ آج کل بے شمار شعبدہ باز مشائخ کاروپ دھارے ہوئے ہیں) تولوگوں کوکیا خاک فائدہ ہوگا۔
اکابر کاکہناہے کہ مشائخ سے استفادے کی چار شرائط ہیں۔پہلی شرط یہ ہے کہ شیخ سے پوری عقیدت ہو،محبت ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس پر اعتماد ہوکہ یہ میری درست رہنمائی کرے گا۔ تیسری اپنی کمزوریوں اوراچھی بری حالت سے شیخ کومطلع کرتارہے۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ شیخ جیسے بتائے اس کی اتباع کرے ،اس کی پیروی کرے۔
ہندوپاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ اورشیخ الحدیث مولانامحمد زکریا مہاجرمدنی ؒ کے سلاسل کوبڑی مقبولیت نصیب فرمائی ہے۔قریبی دور میں حضرت مفتی رشید احمد صاحب ،مولاناشاہ حکیم محمد اختر صاحب ،مولانامحمدیحییٰ مدنی صاحب اورمولانا یوسف لدھیانوی صاحب جیسے بزرگ دنیا سے گزرے ہیں۔ان کے خلفاء کی صحبت اکسیر اوران کاوجود غنیمت ہے۔خواتین کے لیے بھی مشائخ سے استفادہ کچھ مشکل نہیں۔ان بزرگانِ دین کی کتابیں ،بیانات انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔کتابو ں کی دکانوں سے بھی مل جاتے ہیں۔ممکن ہو تواپنے محارم کے ساتھ کبھی کبھی موجودہ مشائخ کے بیانات کی مجالس میں پردے کے اہتمام کے ساتھ حاضری بھی دینا بہت مفید ہے۔
جدید نام نہاد تصوف کے داعی صحبتِ مشائخ کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اس لیے خانقاہوں کو بے کاربتاتے اورمشائخ کے اذکار اورطریق پر معترض ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان جدید فتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اوربزرگانِ دین کی صحبت کواکسیر سمجھ کراس سے استفاد ے کی توفیق عطا فرمائے آمین اللہم آمین