Al Hadith

کھانے کی میز پہ زبیر صاحب نے اپنا  فیصلہ سب کے سامنے رکھ دیا جسے سن کے وہ گنگ تھیں۔وہ کسی طور پہ اس کےلئے رضامند نہیں تھیں۔

’’میں نے زونیر کا داخلہ بورڈنگ سکول میں کروادیا ہے۔ بہت اچھا ماحول ہے۔ اس سکول کی شہرت بہت زبردست ہے۔‘‘

شمائلہ بیگم بالکل راضی نہیں تھیں۔ ان کے خیال میں زونیر ابھی بہت چھوٹا تھا لیکن  زبیر صاحب کے دلائل کے آگے بے بس ہوگئی تھیں۔ زونیر جو دادی جان کے پاس بیٹھا تھا یہ سنتے ہی ان سے لپٹ گیا اور زور زور سے رونے لگا۔

"دادی جان مجھے نہیں جانا میں آئندہ کوئی شرارت نہیں کرونگا۔ اچھا بچہ بن کے رہونگا۔ پلیز مجھے مت بھجیں۔‘‘

اماں جان سے زونیر کا رونا دیکھا نہیں جارہاتھا۔  ان کا کلیجہ پھٹ رہاتھا۔ اک بار پھر انھوں نے زبیر  صاحب کو منانے کی کوشش کی۔ مگر زبیر صاحب کے حتمی جواب پہ وہ خاموش ہوگئیں۔

آخر وہ اذیت بھری گھڑی آپہنچی تھی جب زونیر بورڈنگ روانگی کیلئے گھر سے رخصت ہورہاتھا۔ بڑی مشکل سے اس سے  بہلا پھسلاکے راضی کیا تھا اماں جان نے۔  زونیر روتا ہوا چلا گیا تھا ۔ اماں جان نے کس طرح دل پہ پتھر رکھ کر اس سے بھیجا یہ صرف وہ ہی جانتی تھیں۔زونیر ان کے ہاتھوں میں پلا تھا۔  

زونیر مہینے میں  صرف دو دن کیلئے آتا تھا  اور ہفتے میں اک بار کال آتی تھی۔ جس میں وہ بس روتا رہتا۔   وقت تیزی سے پرواز کرتا گیا۔زونیر سے جب بھی بات ہوتی وہ بس اک ہی رٹ لگائے رکھتا کہ اس سے  واپس بلا لیا جائے۔ اماں جان بس دعائیں کرتی رہتیں۔

وقت کچھ اور آگے بڑھا۔ زری کی تربیت دادی نے اتنی عمدہ کی تھی کہ ہر کوئی اسکی تعریف کرتے نہ تھکتا۔اسکول میں اسکی کارکرد گی سے اس کے اساتذہ بے حد خوش تھے۔  وہ ان کی آنکھوں کا تارا بن چکی تھی۔

گھر میں بھی  وہ سب کی جان تھی ۔ اماں جان کی تو وہ دل کی دھڑکن تھی ہی۔ شمائلہ بیگم بھی دل ہی دل میں اس کی کارگردگی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہتیں۔ زونیر بھی اپنی اس موہنی سی بہن پہ جان چھڑکتا تھا۔

شمائلہ بیگم اور زبیر صاحب کے پاس  وقت کی قلت رہتی تھی۔ وہ  دونوں سرسری انداز لئےملتے۔ زری کو دعا دیتے۔ اوراسکو تحائف دے دیتے۔ پس اپنی ذمہ داری کو اتناہی سمجھتے۔

وقت اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہاتھادیکھتے ہی دیکھتے۔ زری ساتویں جماعت میں آچکی تھی۔ زونیر میٹرک کرچکاتھا۔ آجکل چھٹیوں پہ گھر آیا ہواتھا۔اماں جان اب بیمار رہنے لگی تھیں۔ اک دن رات کو وہ ایسی سوئیں پھر کبھی نہ جاگ سکیں۔

وہ دن پورے گھر کیلئے قیامت کا دن تھا۔ زری اور زونیر نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔ ان کی تو اصل دنیا ہی دادی جان تھیں۔ اس باغ کو اماں جان نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ اب ان کے بعد یہ گلستان بکھرنے لگا تھا۔شمائلہ بیگم اور زبیر صاحب بھی رنجیدہ تھے۔

تین دن گزر گئے تھے مگر زری نے کچھ نہیں کھایا تھا۔زونیر کواسکی فکر لاحق تھی۔شمائلہ بیگم نے تھوڑی کوشش کی پھر انھوں نے بوا جی کو کہہ دیا اور خود کسی ضروری کام سے چلی گئیں۔

زونیر کے واپس جانے کا وقت آگیا تھا۔اور اس دوران اسنے زری کو کافی حد تک سنبھال لیا تھا۔وہ اب پھر سے اسکول جانے شروع ہوگئی تھی۔اک بار پھر زندگی اپنے معمول پہ آچکی تھی ۔

اماں جان کی وفات کو پورا اک سال بیت چکا تھا ۔زری آٹھویں جماعت میں آگئی تھی۔سب نارمل ہوچکے تھے۔مگر زری ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔شمائلہ بیگم کے پاس ہمیشہ کی طرح وقت قلیل ہوتا تھا۔وہ زری کو توجہ نہیں دے پارہی تھیں زری کلی طور پہ بوا جی کے رحم وکرم پہ تھی۔

زری اب وہ زری نہیں رہی تھی جو اپنی دادی جان کے زمانے میں ہواکرتی تھی۔وہ اکیلے میں اکثر روتی رہتی۔کئی کئی دن اسکول نہ جاتی۔اس سے اسکی کارکردگی بے حد متاثر ہوئی تھی۔نالائق اسٹوڈنٹ بنتی جارہی تھی۔سب کے ساتھ  اسکا رویہ بہت اکھڑا ہوا رہتا۔ بدتمیزی عروج پہ ہوتی۔

وہ جو اونچی آواز میں کبھی بات نہیں کرتی تھی اب اکثرچیختی چلاتی نظر آتی۔ کلاس میں بھی لڑائی جھگڑے میں سب سے آگے۔اساتذہ سے بدتمیزی کرنا۔ہوم ورک نامکمل رہتا۔اسکول سے تقریبا روز کوئی نہ کوئی شکایت ضرور آجاتی۔ یہ سب شمائلہ بیگم کی برداشت سے باہر ہوتا گیا ۔وہ خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتیں زری پہ مگر اس پہ کوئی اثر نہ ہوتا وہ ڈھیٹ بن چکی تھی۔ (جاری ہے)