1.شام کے شہر ادلب میں 4 اپریل 2017 کو کیمیکل حملہ کیا گیا، جس میں سینکڑوں افراد زخمی جبکہ 80 کے قریب ہلاک ہوئے۔ مذکورہ کیمیکل حملے میں سیرین گیس کا استعمال کیا گیا۔ آخر یہ سیرین گیس کیا ہے؟
سیرین گیس ایک نرو ایجنٹ ہے جسے 1938 میں جرمنی میں کیڑے مار د3وا کے طور پر بنایا گیا تھا۔ یہ اورگینوفاسفیٹ نامی کیڑے مار دوا سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔ اس کی کوئی بو ہوتی ہے نہ ذائقہ۔ یہ ایک شفاف مائع کی شکل میں ہوتی ہے اور آسانی سے پانی میں حل ہو سکتی ہے۔
یہ تیزی کے ساتھ کثیف گیس میں تبدیل ہو سکتی ہے اور بھاری ہونے کی وجہ سے زمین سے قریب رہتے ہے۔ اگر کوئی جاندار اس کی لپیٹ میں آتا ہے تو وہ سر درد، غنودگی، الجھن، آنکھوں میں تکلیف دھندلا پن،پتلیوں کا سکڑنا، کھانسی ناک بہنا، سینے کی جکڑن اور تیز سانس کا شکار ہو جاتا ہے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پھیپھڑوں میں آگ کا خنجر اتار دیا ہو۔ اس میں الٹی آنا، پیٹ درد، پیشاب آنا، ہیضہ، خون کی روانی میں پریشانی، دل کی دھڑکن اور کمزوری انتہائی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
اس کے جان لیوا اثرات میں تشنج، ہوش کا کھونا، فالج اور سانس کا رک جانا شامل ہیں۔ اگر کوئی انسان اس گیس کا شکار ہوتا ہے تو فوری طور پر اس کے کپڑے اتار دئے جائیں اور پورے جسم کو صابن اور پانی سے دھویا جائے۔ اگر دیکھنے میں دھندلا پن ہوتو 10 سے 15 منٹ تک آنکھوں کو دھویا جائے۔ اگر منہ میں گئی ہے تو الٹی نہ کرائی جائے اور نہ ہی کوئی شربت یا پانی پلایا جائے، ساتھ ہی فوراًمیڈیکل کا انتظام کیا جائے۔
2. آئرلینڈ کے سائنسدانوں کی جانب سے انسانی جسم پر کی گئی تحقیق کے دوران ایک نئے عضو کے دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سائنسدان نے انسانی جسم میں چھپا ایک نیا عضوجسے’میسینٹری’ کا نام دیا گیا ہے تلاش کرلیا جو نظام انہضام میں چھپا ہوا تھا جس کے ذریعہ 100 سال پرانی اناٹمی کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ ان معلومات سے مستقبل میں پیٹ اور انہضام کے عمل میں امراض کے علاج کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور آنتوں کے کسی حصہ کو معدے کے بیرونی حصے سے ملحق رکھنے والی جھلی کو بےربط ڈھانچہ مانا جاتا رہا ہے،
تاہم پروفیسر جے کیلون کوفی کی تحقیق میں یہ کہا گیا ہے یہ بےربط نہیں بلکہ ایک مسلسل ڈھانچہ ہے۔رپورٹس کے مطابق پروفیسر نے اس عضو کے موجود ہونے کے کئی شوائد بھی پیش کیےہیں
پروفیسر جے کیلون کوفی کے مطابق ‘اس جھلی جیسی نظر آنے والی چیز کو ہم نے کبھی جسم کا عضو نہیں مانا، اور اس کے بارے میں زیادہ معلومات سے ناگوار سرجریز اور مشکلات سے بچنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔
انسنای جسم کے ہر حصے کی طرح اس عضو کو سمجھ کر پیٹ کی بیماریوں کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔
3. آپ نے دیکھا ہوگا بکریوں کی آنکھوں کی پتلی مستطیل شکل میں ہوتی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے؟
مستطیل شکل کی پتلیاں بکریوں کو زیادہ چوڑے علاقے پر نظر رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان کی آنکھیں 50 ڈگری تک اوپر نیچے ہو سکتی ہیں جبکہ ایک عام انسان اپنی آنکھوں کو کو صرف 10 ڈگری تک اور نیچے کر سکتا ہے۔ اس طرح گھاس چرتے وقت بھی یہ بآسانی اپنے شکاریوں یا خطرات پر نظر رکھ سکتی ہیں۔
بکریوں کی مستطیل پتلیاں ان کی آنکھوں میں زیادہ روشنی جانے نہیں دیتیں اسی وجہ سے انہیں انسانوں کی طرح سورج کی روشنی میں اندھا پن محسوس نہیں ہوتا۔
وہ جانور جو زمین سے قریب تر ہوتے ہیں ان کی پتلیاں گول اور زیادہ چوڑی پوتی ہیں۔ ان میں خرگوش، بلی، کتے اور اسی طرح کے دیگر جانور شامل یں۔ جیسے جیسے اونچائی بڑھتی جاتی ہے پتلیوں کا دائرہ سکڑتا جاتا ہے۔
4. ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ کائنات ہمارے سابقہ تخمینوں سےبھی 9 گنا زیادہ تیزرفتار کے ساتھ پھیل رہی ہے۔
یہ انکشاف خلا میں موجود ہبل دوربین کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ سائنس دانوں نے ہبل کو خلا میں تاریک مادے ‘ڈارک میٹر’ پر تحقیق کیلئے استعمال کیا تھا۔ اس تحقیق میں کائنات کے پھیلنے کی شرح سے غلطیاں نکال کر اسے خاصی حد تک درست بنایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ماہرین فلکیات نے اس ضمن میں سپرنووا اور بعض اہم ستاروں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ یہ اجرام فلکی وقفے وقفے سے روشنی خارج کرتے رہتے ہیں اور اسی روشنی کی بنیاد پر زمین سے ان کا فاصلہ معلوم کرنا آسان ہوتا ہے۔
سائنس دانوں نے پھیلتے ہوئے خلا میں کھنچتی روشنی کا بغور جائزہ لے کر اندازہ لگایا ہے کہ کائنات کےپھیلنے کی رفتار 73.2 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک ہے۔ ایک میگا پارسیک فاصلہ 3.26 نوری سال کے برابر ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات پہلے کے مقابلے میں 9 گنا زائد رفتار سے پھیل رہی ہے۔