(حضرت حافظ محمدابراہیم نقشبندی کے خطاب سے اقتباس)’’آج کل سائنس کا زمانہ ہے ، گھر گھر کمپیوٹر اور موبائل موجود ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے بھی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں تو سپر کمپیوٹر کے اس دور میں تو لوگوں کی سوچ ہی سائنسی ہو گئ ہے اور وہ ہر بات کو سائنسی نقطہ نظر سے سوچتے اور جانچتے ہیں ۔ ایمان والوں کے دلوں میں اب وہ محبت نہیں رہی کہ وہ اس لئے عمل کریں کہ یہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے۔ آج کوئی سائنسی بات آجائے تو اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔ آج کی سائنسی تحقیقات نبی علیہ السلام کی مبارک سنتوں کی افادیت کو کھول کھول کر بیان کر رہی ہیں ، جبکہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے اعلان کر دیا :
و من یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزا عظیما۔ (سورہ احزاب : 71) ’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تحقیق وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔‘‘
تو نبی علیہ السلام کے طریقوں پر عمل کرنا ، آپ علیہ السلام کے اخلاق و عادات کو اپنانا اس کو سنت کی پیروی کہتے ہیں ، اب سنت کی پیروی عبادات میں ہو ، معاشرت میں ہو ، معیشت میں ہو، انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہو تمام حالات میں یہ انسان کے لئے نفع بخش ہے اور اسی میں انسان کے لئے کامیابی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور یہ بات سو فیصد سچی اور پکی ہے۔
جو انسان نبی علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرتا ہے اس کے اندر نبی علیہ السلام کی محبت بیٹھتی چلی جاتی ہے ۔ قرآن میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں "فاتبعونی" ( تم میری اتباع کرو) اب اتباع کسے کہتے ہیں ؟ اتباع کہتے ہیں کہ انسان حکم کی تعمیل کرے، مگر مجبوری سے نہیں بلکہ شوق و رغبت کے ساتھ۔
یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اتباع کرنے والے کو اپنے متبوع کی مکمل محبت حاصل ہو ، مثال کے طورپر کہ ایک آدمی اپنے ملازم کو حکم دیتا ہے کہ تم بازار سے میرے لیے فلاں چیز لے کر آؤ۔
اب نوکر پیسے لے کر چلا جاتا ہے، لیکن اس کے دل میں غصہ آتا ہے کہ اتنی گرمی میں مجھے بھیج دیا وہ دل کی خراب کیفیت کے ساتھ یہ کام کرتا ہے اس کو اتباع نہیں کہتے بلکہ مجبوری کہتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کوئی عالم ، کوئی اللہ والا اپنے شاگرد یا مرید کو وہی کام کہتا ہے اب وہ شاگرد یا مرید یہ جانتا ہے کہ میرے اس کام سے استاد یا شیخ خوش ہونگے ، اور وہ دھوپ کی سختی کو نہیں دیکھتا- بلکہ جلد از جلد اس کام کو کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے کہ اسے استاد کے دل کی خوشی مطلوب ہوتی ہے ، اس کو اتباع کہتے ہیں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا- تو جنت میں جانے کا آسان طریقہ سنت پر عمل کرنا ہے. سنت کی مثال کشتی نوح کی مانند ہے جو اس میں سوار ہو گیا بچ گیا اور جو سوار نہ ہوا وہ غرق ہو گیا۔ شیطان سے بچنا بہت مشکل ہے اور اگر کوئی طریقہ اس سے بچنے کا ہے تو وہ صرف اور صرف سنت پر عمل کرنا ہے، شیطان ہمارے ایمان کا ڈاکو ہے ، اور سنت پر عمل اس کے خلاف ڈھال ہے ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے ملنے کی دلیل بھی سنت پر عمل کرنا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ نے "زاد المعاد" میں لکھا ہے اسلام صرف رسالت کی تصدیق کا نام نہیں جب تک انسان پوری اطاعت کا عہد نہ کر لے تب تک وہ کامل مسلمان نہیں ہو سکتا۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جس نے میری سنت کی حفاظت کی اللہ پاک چار طرح سے اس کا اکرام فرمائیں گے.
1. نیک لوگوں کے دل میں اس کی عزت ڈال دیں گے
2. فاجر و فاسق کے دل میں اس کی ہیبت ڈال دیں گے
3.: اس کا رزق وسیع فرما دیں گے
4. اس کو دین میں استقامت عطا فرمائیں گے
اگر ہم پورے دن کے کاموں کی لسٹ بنا لیں تو بمشکل پندرہ بیس کام ایسے ہوں گے جو ہم روزانہ کرتے ہیں، مثلا کھانا پینا ، سونا ، کپڑے پہننا ، بیت الخلاء جانا ، بازار جانا، گھر والوں سے ملنا وغیرہ۔
یہ سارے کام روزانہ دہرائے جاتے ہیں، کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو مہینے میں ایک دفعہ کرتے ہیں، اور کچھ ایسے جو سال میں ایک دفعہ اور کچھ ایسے جو زندگی میں ایک دفعہ مثلاً شادی ، حج وغیرہ تو اب اگر ہم اس لسٹ پر غور کریں اور ہر کام کو سنت کے مطابق کرنے کی نیت کر لیں تو آہستہ آہستہ ہماری پوری زندگی سنت کے سانچے میں ڈھل جائے گی-
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامل اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے آمین!‘‘
(حضرت حافظ محمد ابراہیم نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ سے اقتباس)