انسان خطا کا پتلا ہے۔ کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ مجھ سے کبھی غلطی نہ ہوئی۔ بڑی بڑی برگزیدہ ہستیوں سے بھی  غلطی کا ارتکاب ہوا تو پھر عام انسان کیسے محفوظ ره سکتے ہیں۔

لیکن اگر ہم تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں تو ہر وہ ہستی جس سےبھی کوئی غلطی یا کوئی گناہ سر زرد ہوا اور اس نے اپنی غلطی کو محسوس کر کے "معافی وندامت " کا راستہ اپنایا تو اسکی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا۔

 ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام  و اماں حوا علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے بالکل واضح ہے کہ جب ان دونوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر نادانی سے شجرِ ممنوعہ کا پھل کھا کر اللہ کے حکم کے برخلاف کیا تو پھر اس پر ڈٹے نہیں رہے بلکہ نادم ہو کر اللہ کے حضور اپنی خطا کی معافی اس طرح مانگی۔

’’اےہمارے پروردگار ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اگر آپ معاف نہیں فرمائیں گے اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

اللہ رب العزت نے انکو معاف فرمادیا اور خصوصی انعامات سے نوازا  لیکن دوسری طرف ابلیس نے اپنی غلطی ونافرمانی پر نادم ہونے کے بجائے تکبر، سرکشی و بغاوت کا کردار ادا کیا تو اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسکو لعین قرار دے دیا۔

اس واقعہ میں ہمارے لیے یہی سبق پوشیدہ ہے کہ جب بھی ہم سے جانے انجانے میں کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو فوراً معافی مانگ لیں تاکہ غرور و تکبر جیسے زہریلے جذبات پرورش نہ پا سکیں اور عاجزی کے راستے پر چل کر اللہ کا قرب بھی نصیب ہو جائے۔

والدین کو چاہیئے کہ خاص طور پر چھوٹے بچوں میں شروع سے ہی معافی مانگنے کی  عادت کو پروان چڑھائیں کیونک جب بچپن میں ہی عادت بن جائے گی تو بڑے ہو کر یہ عمل قطعاً مشکل نہیں لگے گا اور یوں زندگی بھی سہل رہے گی اور آخرت کی کامیابی بھی نصیب ہو جائے گی۔انشاء اللہ۔