میرے سوہنے موہنے بچو! لالی ایک پیاری سی مرغی تھی ۔ وہ بہت ساری مرغیوں کے ساتھ ایک بڑے سے ٹرک میں شہر جا رہی تھی۔ وہاں ان کو ایک ڈاکٹر نے چیک کرنا تھا۔ سب مرغیاں خوش تھیں کیونکہ اس طرح ان کی سیر بھی ہوجاتی تھی۔ اس ٹرک میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں۔ لالی کو تیز تیز پیچھے جاتی ہوئی سڑک دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے کھڑکی سے اپنی گردن باہر نکال لی۔
’’لالی! گردن اندر کرو ورنہ باہر گر جاؤ گی۔‘‘ لالی کی امی نے کہا۔
’’نہیں امی جان! میں نے ریلنگ پکڑ رکھی ہے۔ میں گر نہیں سکتی۔ ‘‘ لالی نے جواب دیا اور اپنے پنجے خوب جما کر کھڑی ہو گئی۔
تھوڑی دیر بعد ٹرک کی رفتار آہستہ ہوئی اور ایک سپیڈ بریکر آگیا۔
جونہی ٹرک نے جھٹکا کھایا لالی الٹ کر کھڑی سے باہر سڑک پہ جاگری۔ لالی کی امی نے خوب شور مچایا۔
’’کٹ کٹ کٹاک ۔۔ کٹ کٹ کٹاک!‘‘
ڈرائیور نے کانوں میں ہیڈ فون لگا رکھے تھے۔ وہ مرغیوں کا شور بالکل نہ سن سکا اور ٹرک چلاتا رہا۔
ادھر لالی نے سنبھل کر اٹھنے کی کوشش کی تو وہ لڑکھڑا کر پھر گر گئی۔ اس کو بہت ساری چوٹیں آئی تھیں۔ آخر کار وہ آہستہ آہستہ اٹھی اور سڑ ک کے ساتھ اگی ہوئی جھاڑیوں میں جا کر لیٹ گئی۔
’’اب کیا کروں؟ میری امی اور میری سب سہیلیاں کتنا دور چلی گئی ہیں مجھ سے۔‘‘ یہ سوچ کر لالی رونے لگی۔ اس کے رونے کی آواز سن کر ایک خرگوش آگیا۔ اس کا نام گوشی تھا۔گوشی وہیں پاس ہی کھیل رہا تھا۔
’’اوہو! تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘ گوشی نے پوچھا تو لالی نے اسے ساری بات کہہ سنائی کہ کس طرح وہ ٹرک سے گرگئی ہے۔
’’کوئی بات نہیں۔ تم ہمارے ساتھ رہ لو۔‘‘ گوشی نے اپنے لمبے لمبے کان ہلاتے ہوئے کہا۔
’’تمھارے ساتھ! وہ کیسے؟‘‘ لالی نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’آؤ میرے ساتھ۔‘‘ گوشی نے کہا اور اچھلتا ہوا آگے آگے چل پڑا۔ لالی بھی اس کے پیچھے تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک جنگل میں پہنچ گئے جہاں بہت سارے جانور تھے۔ چیتا، شیر، ہاتھی، زرافہ ، گھوڑا، بندراور بہت سارے پرندے بھی۔
لالی یہاں آکر بہت خوش ہوئی۔ سب جانوروں نے مل کر اسے خوش آمدید کہا۔پھر ایک گلہری بھاگ کر مرہم لے آئی اور لالی کے زخموں پر لگا دیا۔مور نے اسے کھانے پینے کا سامان دیا اور بی بطخ نے اس کے لیے ایک چھوٹا سا گھر بنا دیا۔
لالی کھاتی پیتی، جنگل میں ادھر سے ادھر پھرتی اور بہت خوش ہوتی۔ کبھی کبھار اسے اپنی امی بہت یاد آتیں۔ ایک دن وہ سڑک کے ساتھ گھاس میں دانہ چگ رہی تھی جب اس نے ٹرک کی آواز سنی۔
’’گھوں گھوں گھوں!‘‘
لالی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ یہ تو اس کا اپنا ٹرک تھاجس میں سب مرغیاں ڈاکٹر سے چیک کروا کے اب واپس جارہی تھیں۔
لالی کی امی نے بھی لالی کو دیکھ لیا۔
’’کٹ کٹ کٹاک!‘‘
اسی وقت ڈرائیور نے کچھ دور جا کر ٹرک روکا۔ پھر اس نے سیٹ بیلٹ ڈھیلی کی اور آنکھیں بند کر لیں ۔ وہ آرام کرنا چاہتا تھا۔
ادھر لالی نے جلدی جلدی جنگل کے سب دوستوں کو خدا حافظ کہااورٹرک کے پاس آکر کٹ کٹ کٹا ک کرنے لگی۔ اس کے شور سے ڈرائیور کی آنکھ کھل گئی۔
’’اوہ! تم باہر کیسے آگئی؟‘‘ وہ نیچے اترا اور سمجھا کہ لالی ابھی ابھی ریلنگ سے باہر گِری ہے۔ اس نے جلدی سے لالی کو اٹھا کر ٹرک کے اندر بٹھا دیا۔ لالی اندر آتے ہی امی کے گلے لگ گئی۔
جب ٹرک چلا تو لالی نے ریلنگ سے باہر دیکھا۔ دور جھاڑیوں میں دو لمبے لمبے کان اسے خدا حافظ کہہ رہے تھے۔
میرے پیارے بچو! بڑوں کی بات ماننی چاہیے۔ وہ ہمارے فائدے کے لیے کہتے ہیں۔ جب بھی ہم ان کی بات نہیں مانتے اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔