میرے سوہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک نارنجی رنگ کے چوزےچوں چوں کی جس کو چھلی کے دانے بہت پسند تھے۔ جب مرغی ماما روز صبح اس کو اٹھاتیں تو وہ پوچھتا۔
’’کیا میں آج چھلی کا دانہ کھا سکتا ہوں؟‘‘
مرغی ماما کہتیں۔
’’نہیں پیارے بیٹے! آپ کاحلق چھوٹا ہے۔ چھلی کا دانہ گلے میں پھنس جائےگا۔‘‘
چوں چوں اداس ہو جاتا۔ پھر وہ ناشتہ کرتا جو مرغی ماما نے اس کے لیے بنایا ہوتا تھا یعنی نرم نرم روٹیاں اور میٹھا پانی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن چوں چوں گھاس میں کھیل رہا تھا۔ اسے لگا کہ اس کے پاؤں کے نیچے چھلی کا دانہ ہے۔ اس نے جلدی سے پاؤں اوپر کیا تو واقعی! وہ توچھلی کا دانہ تھا۔
’’آہا! میں تو آج چھلی کا دانہ کھاؤں گا! آہا کتنا مزہ آئے گا۔‘‘ چوں چوں خوشی سے بولتا جارہا تھا۔ پھر اس نے گھر پہنچ کر دانہ اچھی طرح دھویا اور منہ میں رکھ لیا۔
لیکن یہ کیا! دانہ تو بہت سخت تھا اوراندر جا ہی نہیں رہا تھا۔ چوں چوں نے دانہ حلق سے اتارنے کے لیے زور لگایا تو وہ اس کے گلے میں پھنس گیا۔
’’آہ! آخ۔۔‘‘ اب تو چوں چوں عجیب عجیب سی آوازیں نکالنے لگا۔ یہ آوازیں سن کر مرغی ماما کچن سے دوڑیں آئیں۔ انہوں نے جلدی سے چوں چوں کو پروں میں بٹھایااور بندر میاں کے پاس لے گئیں۔
بندر میاں نے چوں چوں کے گلے کو اندر سے اچھی طرح دیکھا۔ پھر ایک چھوٹی سی چمٹی سے دانہ پکڑ کر باہر نکال دیا۔
’’چوں چوں بیٹا! آپ کو یہ دانہ نہیں کھانا چاہیے تھا۔ یہ بہت پرانا ہو گیا ہے اور سخت بھی۔‘‘ بندر میاں نے کہا تو چوں چوں نے سر جھکا لیا۔
شام کو جب مرغی ماما اس کے لیے گرم گرم سوپ بنا کر لائیں تو چوں چوں نے کہا۔
’’مجھے معاف کر دیں امی جان! میری توبہ!اب میں چھلی کا دانہ نہیں کھاؤں گا۔ اور جو کچھ بھی کھاؤں گا آپ سے پوچھ کر کھاؤں گا۔میں نے آپ کی بات نہیں مانی اس لیے مجھے بہت درد ہوا ہے۔‘‘
مرغی ماما مسکرائیں اور پیار سے چوں چوں کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
میرے پیارے بچو! ہمیں بھی اپنی امی کی بات ماننی چاہیے۔ ہو سکتا ہے ہمیں کوئی چیز بہت اچھی لگتی ہو لیکن اگر ہماری ہمیں منع کریں تو ہمیں وہ چیز نہیں کھانی چاہیے۔ امی ہر بات ہمارے فائدے کے لیے کہتی ہیں۔‘‘