میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہےبوگن بیل میں بنے ہوئے ایک پیارے سے گھر کی جس میں بہت ساری شہد کی مکھیاں اور ایک ملکہ رہتی تھی۔اس گھر میں بہت سارے کمرے تھے۔ سب کمروں میں شہد بھرا ہوا تھا۔ گھرکے باہر دو گارڈ کھڑے تھے جو ہر مکھی کا لایا ہوا رس چیک کرتے تھے۔ اگر وہ رس ٹھیک ہوتا تو وہ اسے کمروں میں رکھوا دیتے ۔
میرے بچو! ایک ننھی منی سی مکھی سیمی کو نیلے رنگ کے پھولوں کے پاس جانا بہت اچھا لگتا تھا۔ ایک دن سیمی نیلے پھولوں کے پاس گئی اور ان سے کہا۔
’’پیارے پھول! میں آگئی ہوں۔ کیا میں آپ کا رس لے سکتی ہوں؟‘‘
’’نہیں نہیں! سیمی بہن! ہمارا رس کڑوا ہے۔ اگر آپ ہمارا رس لے کر جائیں گی تو آپ کو گارڈ انکل سے ڈانٹ پڑے گی۔ ‘‘ ایک بڑا نیلا پھول نے کہا۔
’’اوہ! مجھے نیلا رنگ پسند ہے۔ میں تو آج یہیں سے رس لے کر جاؤں گی۔‘‘
سیمی نے کہا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی چھوٹی سی بوتل میں نیلے رنگ کا رس بھر لیا۔
پھر اس نے نیلے پھولوں کو خدا حافظ کہااور اپنے گھر کی طرف چل دی۔ جب وہ گیٹ پر پہنچی تو گارڈ نے اس کی بوتل چیک کی۔ رس کڑوا تھا! گارڈ انکل نے سیمی کو کہا۔
’’سیمی! آپ کڑوا رس لائی ہیں۔ کڑوے رس سے شہد نہیں بن سکتا۔‘‘
’’لیکن مجھے نیلا پھول پسند ہے۔ بس!‘‘ چھوٹی سی سیمی ضد کرنے لگی۔
’’نہیں بیٹا! یہ رس ہم گھر میں رکھ سکتے۔ یہ باقی شہد کو خراب کر دے گا۔ آپ کو چاہیےکہ گلابی یا زرد پھولوں کا رس لائیں۔‘‘
گارڈ انکل نے کہا اور بوتل میں سے رس نکال کر نیچے گھاس پر پھینک دیا۔
اگلے دن سیمی اداس تھی ۔ وہ خاموشی سے نیلے رنگ کے پھولوں پر جا کر بیٹھ گئی۔ آج وہ باتیں نہیں کر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر بڑے والے نیلے پھول نے اسے سمجھایا۔
’’پیاری سیمی! آپ کے بڑے ٹھیک کہتے ہیں۔ اگر آپ اچھا رس لے کر نہیں جائیں گے تو شہد خراب ہو جائے گا ۔اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔ بڑوں کی بات مان لیتے ہیں۔ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ ‘‘
ایک چھوٹے پھول نے سیمی کو اپنی پتی تحفے میں دی۔
’’پیاری سیمی! یہ پتی آپ اپنے ساتھ باندھ لو۔ جب آپ اڑو گی تو آپ کو ہماری خوشبو آئے گی۔‘‘
سیمی اس تحفے سے خوش ہو گئی۔ اس نے جلدی سے پتی لے لی اور اپنے اوپر اوڑھ لی۔ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ پھر اس نے گلابی پھولوں کو رس بوتل میں بھرا اور اڑ گئی۔
میرے پیارے بچو! اگر کبھی آپ کو شہد کی ایک چھوٹی سی مکھی ، نیلے رنگ کی پتی لیے، اڑتی نظر آئے تو آپ جان جائیے گا! وہ پیاری سیمی ہی تو ہے!