چھٹی کا دن ہے۔ انجو کے باباجان صبح سے مالی کے ساتھ مصروف ہیں۔ پہلے وہ ڈھیر سارے  بیج لے کر آئے ہیں۔ اب مالی کے ساتھ پودوں کی گوڈی  کر رہے ہیں۔

انجو سو کر اٹھی  تو کیاری سے آوازیں آرہی تھیں۔

’’مالی بابا آئے ہیں!‘‘ انجو نے نعرہ مارا اور باہر بھاگنے لگیں۔

’’ہائے بہو! اتنی ٹھنڈ اور انجو بٹیا جوتے کے بغیر۔۔‘‘ دادو چلائیں۔ ان کا جملہ پورا سننے بغیر ماما جان نے انجو کو پکڑ کر گود میں اٹھا لیا جو دروازے کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ خیر! ماما جان نے ان کا منہ ہاتھ دھلوایا۔ نئے صاف کپڑے پہنائے اور شہد ملا دلیا کھا کر ہماری انجو کیاری میں پہنچ گئیں۔

’’واہ ہ ہ!‘‘ انجو کے منہ سے نکلا۔ کیاری بالکل نئی لگ رہی تھی۔ یہاں سے لے کر وہا ں تک رنگ برنگے پھولوں والے پودے لگے ہوئے تھے۔

’’بابا جان! یہ کون سا پھول ہے؟‘‘ انجو نے  ایک پودے کی جانب اشارہ کیا جہاں ایک بڑا سا سرخ رنگ کا پھول لگا ہوا تھا۔

’’میری بٹیا! یہ گلاب ہے۔ ہم نے دو رنگوں کے گلاب لگائے ہیں۔ ایک یہ سرخ اور دوسرا یہ اس کے ساتھ گلابی رنگ کا۔ ‘‘ بابا جان نے پیار سے ان کی ٹوپی کا پھندنا ہلایا۔

’’اور یہ والا ۔۔ یہ تو بہت بڑا سا ہے۔‘‘ انجو نے چھوٹی چھوٹی پتیوں والے ایک اور پھول کی جانب اشارہ کیا۔ 

’’یہ گیندے کا پھول ہے۔ یہ نارنجی رنگ کا ہوتا ہے۔ ابھی اس پودے پر ایسے ہی پھول اگیں گے اور ہماری کیاری بہت پیاری لگے گی۔‘‘ بابا جان نے پیار سے پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہ رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پھوار والے جگ سے پودوں کو ہلکا ہلکا پانی بھی دے رہے تھے۔

انجو دوڑتی ہوئیں کیاری کے اس طرف چلی گئیں۔ یہاں ایک پودے پر سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول تھے۔ انجو کو ان کی خوشبو بہت اچھی لگی۔ یہاں مالی بابا ایک پودے کے فالتو پتے کاٹ رہے تھے۔

’’بابا! یہ کون سا پھول ہے۔ مجھے اس کو توڑنا ہے۔‘‘ انجو نے کہا تو مالی بابا مسکرائے اور کہنے لگے۔

’’اس پھول کو موتیا کہتے ہیں بیٹا! لیکن پھولوں کو توڑنا اچھی بات نہیں۔ان کو بھی درد ہوتی ہے۔‘‘

’’اچھا!  ٹھیک ہے ۔‘‘ انجو کو حیرانی تو ہوئی لیکن انہوں نے اچھے بچوں کی طرح ضد نہیں کی۔

رات کوبابا جان  بڑا گیٹ بند کرنے گئے تو انجو بھی ساتھ تھی۔ ان کو لگا کہیں سے بہت پیاری سی ہلکی سی خوشبو آرہی ہے۔

’’باباجان! یہ کس پھول کی خوشبو ہے۔ یہ تو بہت پیاری ہے۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔

’’میری بٹیا! یہ رات کی رانی کا پھول ہے۔ یہ صرف رات کو کھلتا ہے۔‘‘ بابا جان نے بتایا اور ان کا ہاتھ پکڑکر کیاری کے پاس چلے گئے۔ انجو نے دیکھا بہت چھوٹے چھوٹے ہلکے زرد سے پھول  کھلے ہوئے تھے۔ ان کی خوشبو  ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ انجو کچھ دیر پھولوں کو دیکھتی رہیں پھر بولیں۔

’’باباجان! ان پھولوں کو کون بناتا ہے؟ ‘‘

’’ جیسے مجھے آپ کو ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح یہ سب پھول پودے بھی اللہ نے بنائے ہیں۔‘‘

میرے  پیارے  بچو! جب انجو رات کوسونے کے لیے لیٹیں تو ان کے ذہن میں ایک ہی بات آرہی تھی۔ اگر پھولوں کو توڑنا اچھی بات نہیں تو دادی جان کے کانوں میں سفید سفید موتیے کے پھول کہاں سے آئے تھے؟