Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


میں کیوں نہ روؤں؟

          Print

میں کمبخت اس بار بھی بھول گیا تھا۔ وہ تو منے نے مجھے یاد دلایا تھا۔ اس رات میں بہت دیر سے دکان سے گھر لوٹا تھا۔ اس وقت بیگم سمیت بچے بھی سوچکے تھے۔ انہیں اٹھانے پر وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھیں اور گھڑی دیکھتے ہوئے حیرانی سے بولیں۔’’ ارے آج پھر اتنی دیر کردی آپ نے۔‘‘

’’بھئی سارا دن کام نہیں تھا۔ کام ہی لیٹ آیا  تو دیر تو ہونی ہی تھی۔ خیر تم کھانا دو۔‘‘
ہماری آوازیں بہت آہستہ تھیں، مگر محمد علی شاید سویا نہیں تھا اسی لیے میری آواز سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

بند لبوں کے نوحے

          Print

’’اماں جان! امجد بھائی کی شادی ذرا سادگی سے ہونی چاہیے نا!“ میں نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ اماں برا مان گئیں۔ ”ارے کیا دوسری شا دی ہے میرے بیٹے کی؟ بھئی میں تو سارے ارمان پورے کروں گی۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ لیکن کچھ تو پتہ چلے ناکہ ایک مذہبی اور عام گھرانے کی شادیوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔۔‘‘

      ’’سارہ بیٹا!“ اب کہ ابو جی نے سنجیدگی سے میری بات کاٹ دی۔ ”آپ اپنے فرق رہنے دیں۔

ملّاح کی دور اندیشی

          Print

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک کی ملکہ نے نے اپنے سب سے بڑے جہاز کے کپتان کو بلا کر کہا۔ ”‌ فوراً بادبان چڑھاؤ، لنگر اٹھاؤ اور جہاز لے کر روانہ ہوجاؤ۔ تم کوشش کرکے دنیا کے ان حصوں میں بھی جاؤ جہاں اب تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اور وہاں جو چیز تم کو سب سے زیادہ عمدہ، عجیب اور قیمتی نظر آئے، جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ قیمت کی ہرگز پروا نہ کرنا۔ میں ایک بار اپنے ملک والوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جسے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ قیمتی اور ایک آسمانی نعمت کہا جا سکے۔

ناامید مت ہونا

          Print

ىہ بوڑھے عبداللہ کا جىل سے باہر پہلا دن تھا۔صدر پاکستان نے چودہ اگست کى خوشى مىں بہت سارے قىدىوں کى سزا کم کر دى تھى۔ وہ تقرىباً چالىس سال کى قىد کاٹ کر رہا ہوا تھا۔ اس کے کئى دوستوں کو رشتہ دار لىنے آئے ہوئے تھے لىکن عبداللہ کو کون لىنے آتا؟ اىک ہى بىٹا تھا جوکئى سال پہلے فوت ہو گىا تھا ۔ البتہ اس کا پوتا سلىم جىل مىں اسے ملنے آتا رہتا تھا۔
سڑک پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دىکھا۔ بہت کچھ اجنبى ہو گىا تھا۔ اس نے اىک گہرى اور لمبى سانس لى۔ تىز دھوپ سے بھرا چمکدار آسمان ،

صرف ایک ہنر!

          Print

میں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جو بالکل صاف تھا ۔۔۔میری سوچوں کی طرح!اکثر ہمیں کوئی بات  میں بہت دیر لگ جاتی ہے ۔ میں نہ جانے کتنی دیر سے بیٹھی رانیہ کو سوچے جا رہی تھی۔ رانیہ میری تایا زاد بہن اور میری ہم عمر تھی۔ تایا ابا کی فیملی بہت پہلے ہی لاہور آ گئی تھی جبکہ باقی سارا خاندان گاؤں میں رہائش پذیر تھا۔ سو رانیہ شہر میں رہنے والی میری واحد کزن تھی اور اس میں بری طرح متاثر تھی۔ میں نے زندگی کے ہر موقع پر اپنا موازنہ رانیہ سے کیا۔

شرارتی کِن کِن

          Print

"بیٹا چائے پی لو۔" ناصر نے جوتوں کے تسمے باندهتے ہوئے سر اٹها کر دیکها۔ 
اماں چائے کا کپ لیے دروازے میں کهڑی تهیں۔ اس کے چہرے پر بے زاری پهیل گئی۔ 
تهوڑی دیر بعد وہ انٹرویو پر جانے کے لیے بالکل تیار تها۔
"بیٹا تو نے چائے نہیں پی۔ چائے۔۔۔" لیکن ناصر چوکهٹ پار کر کے جا چکا تها۔ 
پتہ نہیں اس نے چائے کیوں نہیں پی۔ اماں سوچتے سوچتے کچن میں کپ رکهنے گئیں تو وہاں پہلے سے ایک اور چائے کا کپ دیکھ کر الجھ کر رہ گئیں۔ 

لڑکے کی ایمانداری

          Print

کہتے ہیں نوشیرواں عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات وہ کسی زمیندار کے گھر پہنچا جو مہمان نوازی میں بہت مشہور تھا۔ نوشیرواں نے سوداگروں کے لباس میں اس کے گھر جا کر دستک دی تو شریف زمیندار خوشی سے دروازہ کھول کر اسے اندر لے گیا اور پورے شوق کے ساتھ مہمان کی خدمت کرنے لگا۔ کھانا کھلایا اور بستر بچھا کر چارپائی پر سلا دیا اور بہت دیر تک گپ شپ کرتا رہا۔ صبح بادشاہ نے چلنے کی تیاری کی تو اس نے چائے کے ساتھ ناشتہ لا کر مہمان سے پوچھا۔ کسی اور چیز کی خواہش ہو تو فرما دیجئے تاکہ وہ بھی حاضر ہو جائے۔ بادشاہ دیکھ چکا تھا کہ اس شخص کے مکان کے ساتھ پختہ انگوروں کا ایک عمدہ باغ موجود ہے مگر نہ رات کو اور نہ اب اس نے انگور کھلائے۔ اس لئے فرمایا مجھے انگور بہت پسند ہیں۔