زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں اس Category میں پیشِ خدمت ہیں۔
- تفصیلات
- Written by: بنتِ عبداللہ
میں کمبخت اس بار بھی بھول گیا تھا۔ وہ تو منے نے مجھے یاد دلایا تھا۔ اس رات میں بہت دیر سے دکان سے گھر لوٹا تھا۔ اس وقت بیگم سمیت بچے بھی سوچکے تھے۔ انہیں اٹھانے پر وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھیں اور گھڑی دیکھتے ہوئے حیرانی سے بولیں۔’’ ارے آج پھر اتنی دیر کردی آپ نے۔‘‘
’’بھئی سارا دن کام نہیں تھا۔ کام ہی لیٹ آیا تو دیر تو ہونی ہی تھی۔ خیر تم کھانا دو۔‘‘
ہماری آوازیں بہت آہستہ تھیں، مگر محمد علی شاید سویا نہیں تھا اسی لیے میری آواز سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
- تفصیلات
- Written by: : بنتِ احمد
’’اماں جان! امجد بھائی کی شادی ذرا سادگی سے ہونی چاہیے نا!“ میں نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ اماں برا مان گئیں۔ ”ارے کیا دوسری شا دی ہے میرے بیٹے کی؟ بھئی میں تو سارے ارمان پورے کروں گی۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ لیکن کچھ تو پتہ چلے ناکہ ایک مذہبی اور عام گھرانے کی شادیوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔۔‘‘
’’سارہ بیٹا!“ اب کہ ابو جی نے سنجیدگی سے میری بات کاٹ دی۔ ”آپ اپنے فرق رہنے دیں۔
- تفصیلات
- Written by: ماخوذ
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک کی ملکہ نے نے اپنے سب سے بڑے جہاز کے کپتان کو بلا کر کہا۔ ” فوراً بادبان چڑھاؤ، لنگر اٹھاؤ اور جہاز لے کر روانہ ہوجاؤ۔ تم کوشش کرکے دنیا کے ان حصوں میں بھی جاؤ جہاں اب تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اور وہاں جو چیز تم کو سب سے زیادہ عمدہ، عجیب اور قیمتی نظر آئے، جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ قیمت کی ہرگز پروا نہ کرنا۔ میں ایک بار اپنے ملک والوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جسے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ قیمتی اور ایک آسمانی نعمت کہا جا سکے۔“
- تفصیلات
- Written by: آمنہ خورشید
ىہ بوڑھے عبداللہ کا جىل سے باہر پہلا دن تھا۔صدر پاکستان نے چودہ اگست کى خوشى مىں بہت سارے قىدىوں کى سزا کم کر دى تھى۔ وہ تقرىباً چالىس سال کى قىد کاٹ کر رہا ہوا تھا۔ اس کے کئى دوستوں کو رشتہ دار لىنے آئے ہوئے تھے لىکن عبداللہ کو کون لىنے آتا؟ اىک ہى بىٹا تھا جوکئى سال پہلے فوت ہو گىا تھا ۔ البتہ اس کا پوتا سلىم جىل مىں اسے ملنے آتا رہتا تھا۔
سڑک پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دىکھا۔ بہت کچھ اجنبى ہو گىا تھا۔ اس نے اىک گہرى اور لمبى سانس لى۔ تىز دھوپ سے بھرا چمکدار آسمان ،
- تفصیلات
- Written by: زویا ممتاز ۔ ملتان
میں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جو بالکل صاف تھا ۔۔۔میری سوچوں کی طرح!اکثر ہمیں کوئی بات میں بہت دیر لگ جاتی ہے ۔ میں نہ جانے کتنی دیر سے بیٹھی رانیہ کو سوچے جا رہی تھی۔ رانیہ میری تایا زاد بہن اور میری ہم عمر تھی۔ تایا ابا کی فیملی بہت پہلے ہی لاہور آ گئی تھی جبکہ باقی سارا خاندان گاؤں میں رہائش پذیر تھا۔ سو رانیہ شہر میں رہنے والی میری واحد کزن تھی اور اس میں بری طرح متاثر تھی۔ میں نے زندگی کے ہر موقع پر اپنا موازنہ رانیہ سے کیا۔
- تفصیلات
- Written by: انجم شاہین۔ لاہور
"بیٹا چائے پی لو۔" ناصر نے جوتوں کے تسمے باندهتے ہوئے سر اٹها کر دیکها۔
اماں چائے کا کپ لیے دروازے میں کهڑی تهیں۔ اس کے چہرے پر بے زاری پهیل گئی۔
تهوڑی دیر بعد وہ انٹرویو پر جانے کے لیے بالکل تیار تها۔
"بیٹا تو نے چائے نہیں پی۔ چائے۔۔۔" لیکن ناصر چوکهٹ پار کر کے جا چکا تها۔
پتہ نہیں اس نے چائے کیوں نہیں پی۔ اماں سوچتے سوچتے کچن میں کپ رکهنے گئیں تو وہاں پہلے سے ایک اور چائے کا کپ دیکھ کر الجھ کر رہ گئیں۔
- تفصیلات
- Written by: حکایت
کہتے ہیں نوشیرواں عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات وہ کسی زمیندار کے گھر پہنچا جو مہمان نوازی میں بہت مشہور تھا۔ نوشیرواں نے سوداگروں کے لباس میں اس کے گھر جا کر دستک دی تو شریف زمیندار خوشی سے دروازہ کھول کر اسے اندر لے گیا اور پورے شوق کے ساتھ مہمان کی خدمت کرنے لگا۔ کھانا کھلایا اور بستر بچھا کر چارپائی پر سلا دیا اور بہت دیر تک گپ شپ کرتا رہا۔ صبح بادشاہ نے چلنے کی تیاری کی تو اس نے چائے کے ساتھ ناشتہ لا کر مہمان سے پوچھا۔ کسی اور چیز کی خواہش ہو تو فرما دیجئے تاکہ وہ بھی حاضر ہو جائے۔ بادشاہ دیکھ چکا تھا کہ اس شخص کے مکان کے ساتھ پختہ انگوروں کا ایک عمدہ باغ موجود ہے مگر نہ رات کو اور نہ اب اس نے انگور کھلائے۔ اس لئے فرمایا مجھے انگور بہت پسند ہیں۔
صفحہ 11 کا 12