میرا ایک دوست اپنی پریشانی کی شکایت لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا میری آمدنی کم ہے اور بال بچّے بہت ہیں۔ مجھ میں فاقہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ کئی بار یہ سوچا کہ کسی دوسرے ملک میں چلا جاؤں تاکہ وہاں جس حال میں بھی گزر ہوگا کسی کو میرے بُرے بھلے کی خبر نہ ہوگی۔

بہت سے لوگ بھوکے سو جاتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا یہ کون ہیں۔ بہتوں کی جان پر بن آئی مگر کوئی ان کے حال پر رونے والا نہ ہوا۔

پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ دشمن میری ہنسی اڑائیں گے اور مجھے طعنہ دیں گے اور کہیں گے کہ اپنے بال بچّوں کو بے سروسامانی میں چھوڑ گیا۔ یہ بات کوئی نہ کہے گا کہ بال بچّوں ہی کے لیے محنت کرکے روپیہ کمانے گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں میں علم حساب جانتا ہوں اگر آپ کے ذریعہ کوئی ملازمت مل جائے تو مجھے اطمینان حاصل ہو۔ میں زندگی بھر آپ کا احسان مانوں گا۔ میں نے اس سے کہا۔ اے میرے دوست بادشاہ کی ملازمت دوزخ ہوتی ہے۔ ایک طرف روٹی ملنے کی امید ہے تو دوسرے طرف جان کا خطرہ۔ عقل مندوں کی رائے ہے کہ کسی امید پر جان کو خطرے میں ڈالنا عقل مندی نہیں ہے۔ یا تو پریشان حالی پر راضی ہو جاؤ یا پھر جان کو خطرے میں ڈالو۔

غریبی کی حالت میں کوئی تمھارے پاس زمین اور باغ کا ٹیکس لینے نہیں آئے گا۔ فقیر کے گھر سے کوئی کچھ مانگنے نہیں آتا۔

یا تو پریشانی اور تکلیف میں زندگی بسر کرو یا پھر بادشاہ کی ملازمت کی سختی برداشت کرو اور جان کو خطرے میں ڈالو۔

اس نے جواب دیا آپ نے جو باتیں کہی ہیں وہ میری حالت کے موافق نہیں ہیں اور نہ میرے سوال کا مناسب جواب ہیں۔ آپ جانتے ہیں جو ایمان داری سے حساب کتاب رکھتا ہے اس کا ہاتھ حساب دینے کے وقت کانپتا نہیں ہے۔ (یعنی جو بے ایمانی کرتا ہے وہی خوف سے کانپتا ہے)۔

سچائی سے خدا خوش ہوتا ہے۔ جو سیدھے راستے پر چلتا ہے وہ کبھی نہیں بھٹکتا ہے۔

عقل مندوں کا کہنا ہے کہ چار آدمی چار آدمیوں کے جانی دشمن ہوتے ہیں۔ ڈاکو بادشاہ کا دشمن ہوتا ہے اور چور چوکیدار کا، اور بُرے کام کرنے والا چغل خور کا اور نافرمان کو توال سے دشمنی رکھتا ہے۔ اور جن کا حساب صاف ہوتا ہے ان کو حساب دینے میں کوئی ڈر نہیں۔

بادشاہ کے دفتر کے کاموں میں لوگوں کے ساتھ سختی کا برتاؤ نہ کرو۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو ملازمت سے علاحدہ کرانے کی کوشش کرنے والے تمھارے دشمن عاجز اور بے بس ہو جائیں تم اپنا حساب صاف رکھو اور کسی سے ہرگز خوف نہ کرو۔ ڈرتا وہ ہے جس کا حساب گندہ ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ دھوبی اسی کپڑے کو پتھر پر پٹکتا ہے جو میلا اور ناپاک ہوتا ہے۔

میں نے اپنے دوست کی باتیں سن کر اس سے کہا اے دوست! تمھارا حال اس لومڑی جیسا ہے جو گرتی پڑتی بھاگ رہی تھی۔ کسی نے پوچھا بی لومڑی! اتنا بدحواس ہو کر کیوں بھاگ رہی ہو۔ لومڑی نے جواب دیا! میں نے سنا ہے کہ اونٹوں کو بیکار میں پکڑا جا رہا ہے اس لیے میں بھی بھاگ رہی ہوں ایک نے کہا اے بے وقوف! تیرا اور اونٹ کا کیا جوڑ۔ کہاں تم کہاں اونٹ؟ یہ کیا بکواس کر رہی ہے۔

لومڑی نے کہا۔ چپ رہو، اگر حاسدوں نے دشمنی میں کہہ دیا کہ یہ لومڑی بھی اونٹ کا بچّہ ہے تو مجھے پکڑ لیا جائے گا۔ پھر کون چھڑائے گا۔ جب تک چھان بین کی جائے گی تب تک میں قیدخانے میں تڑپ تڑپ کر مرجاؤں گی۔ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا تب تک سانپ کا ڈسا ہوا مر جائے گا۔ اے میرے دوست! یہ مانا کہ تم بہت ایمان دار اور عالم فاضل ہو لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عیب لگانے والے گھات میں بیٹھے ہیں۔ دشمن تاک لگائے ہیں۔ اگر تم کو بادشاہ کی ملازمت مل گئی تو دشمن چغل خوری کر کے اس کو تمھارے خلاف کر دیں گے اور تمھاری جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ پھر کون دربار میں صفائی دیتا پھرے گا اس لیے میں بہتر سمجھتا ہوں کہ تم سرکاری ملازمت کا خیال بالکل چھوڑ دو اور جس حال میں ہو اسی میں خوش رہو۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا کہ:

دریا میں غوطہ لگانے والے کے لیے بہت فائدے ہیں لیکن اپنی جان کی سلامتی چاہتے ہو تو کنارے ہی پر رہنے میں بہتری ہے۔ (غوطہ لگانے میں موتی بھی ملتے ہیں اور ڈوب مرنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے)

میرے دوست کو یہ باتیں ناگوار معلوم ہوئیں۔ اس کو غصّہ آگیا۔ اس نے منہ پھیر لیا اور ناخوشی کی باتیں کرنے لگا اور کہا یہ کون سی عقل مندی کی باتیں ہیں جو آپ کر رہے ہیں۔ عقل مندوں نے کہا ہے کہ دوست وہ ہیں جو قید خانہ میں کام آئیں ورنہ دسترخوان پر تو دشمن بھی دوست معلوم ہوتے ہیں:

اس شخص کو ہرگز دوست مت سمجھ جو آرام کے زمانے میں ساتھ ہو اور محبت اور دوستی کی ڈینگیں مارے۔ میں تو دوست اس کو سمجھتا ہوں جو پریشان حال اور عاجزی کے وقت اپنے دوست کی مدد کرے!

میں نے دوست کا رنگ بدلا ہوا دیکھا تو میں بادشاہ کے وزیر کے پاس گیا۔ اس سے بہت پرانی جان پہچان تھی۔ میں نے اس سے اپنے دوست کی سفارش کی۔ اس کی قابلیت کا ذکر کیا۔ وزیر نے ایک معمولی جگہ پر اس کا تقرر کر دیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس نے اپنی ایمان داری اور محنت سے بہت ترقی حاصل کر لی۔ اس کے کام سے سب خوش تھے۔ رفتہ رفتہ ترقی کر کے بادشاہ کا قابلِ اعتماد مصاحب بن گیا۔ میں اس کو خوش حال دیکھ کر بہت خوش ہوا اور میں نے کہا:

کسی مشکل کام کے پیش آنے سے پریشان نہ ہو، جانتے ہو؟ آب حیات کا چشمہ اندھیرے میں ہے۔ یعنی تکلیف اٹھانے کے بعد ہی آرام نصیب ہوتا ہے۔ مصیبت اور بلا میں پھنسنے والے کو پریشان اور رنجیدہ نہ ہونا چاہیے بلکہ مصیبتوں پر صبر کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کی بہت سے مہربانیاں ہیں جو ہم پر ہوتی ہیں مگر پتہ نہیں چلتا۔ صبر بہت کڑوا ہوتا ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔

کچھ دنوں بعد دوستوں کے ایک قافلہ کے ساتھ مجھے سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ جب مکّہ معظمہ کی زیارت کر کے واپس آرہا تھا تو وہ دوست شہر سے باہر میرے استقبال کے لیے آیا۔ میں نے اس کو پریشان حال پایا۔ فقیروں جیسا لباس پہنے ہوئے تھا۔ میں نے پوچھا یہ کیا حالت بنائی ہے اس نے کہا۔ جیسا آپ نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ کچھ لوگ مجھ سے حسد کرنے لگے۔ مجھ پر بے ایمانی کا الزام لگایا۔ بادشاہ نے اس الزام کی چھان بین نہیں کی۔ پرانے ساتھیوں اور مخلص دوستوں نے ساتھ چھوڑ دیا کسی کو حق بات کہنے کی جرأت نہ ہوئی!

کیا آپ نے نہیں دیکھا ہے کہ لوگ بلند مرتبہ شخص اور حاکم کے سامنے اس کی تعریف کرتے ہیں اور سینہ پر ہاتھ باندھ کر ادب کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور زمانہ کے الٹ پھیر میں وہ اپنے عہدہ اور مرتبہ سے محروم ہو جاتا ہے تو لوگ اس کے سر پر پاؤں رکھتے ہیں یعنی اس کی بے عزتی کرتے ہیں!

غرض یہ کہ میں طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا رہا۔ ملازمت ختم ہوئی، قید خانہ میں پڑا رہا، اس ہفتہ میں حاجیوں کے قافلہ کی واپسی کی خوش خبری سن کر جو قیدی رہا ہوئے ہیں میں بھی انھیں میں سے ہوں، مجھ کو بھاری بیڑیوں اور ہتھکڑیوں سے نجات ملی اور میرا سامان مجھے واپس مل گیا۔

میں نے کہا تم نے اس وقت میری بات نہ مانی اور میرے سمجھانے کو بُرا خیال کیا۔ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بادشاہ کی ملازمت دریا کے سفر کی طرح خطرناک بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔ یا تو تم کو خزانہ ملے گا یا پھر کسی گورکھ دھندہ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا!

تجارت کے لیے سمندر میں سفر کرنے والا تاجر یا تو دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ کر اپنا دامن بھر لیتا ہے (یعنی تجارت سے بہت نفع حاصل کرتا ہے) یا سمندر کی لہر اس کے مردہ جسم کو کنارے پھینک دیتی ہے!

اس سے زیادہ بُرا بھلا کہنا مناسب نہیں معلوم ہوا اور اس کے زخموں پر نمک چھڑکنا اچھا نہیں لگا۔ صرف ایک مختصر بات کہہ دی کہ:

کیا تو یہ نہیں جانتا ہے کہ جو نصیحت کی پرواہ نہیں کرتا ہے وہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے اور اس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑ جاتی ہیں۔ اگر تم میں ڈنک کی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے تو بچھّو کے سوراخ میں انگلی مت ڈالو۔

(یعنی جو آرام کی خواہش کرے اسے تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے)!