(جناب مصطفیٰ صادق صاحب کا وہ تاریخی مضمون جس پر انہیں تحریک پاکستان کے ایک مجاہد کی حیثیت سے گولڈمیڈل کا حقدار ٹھہرایا گیا)
(آخری حصہ)
آج جب میں یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں، ان اذیت ناک لمحوں کو بیتے کم و بیش 45 سال گزر چکے ہیں اور اسی مرقی پنجاب میں جہاں ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے آئے دن قتل و غارت گری اور دہشت و بربریت کی ایسی لرزہ خیز وار داتیں رونما ہو رہی ہیں جن کا علم ہونے پر ہر شریف انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ہندو سکھوں کے ہاتھوں اور سکھ ہندوؤں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اسے مکافات عمل کہئے یا کوئی بھی دوسرا نام دیجئے، میرے نزدیک دہشت گردی اور تشدد پسندی کا ارتکاب جو بھی کرے اسے ظالم ہی کہا جائے گا اور جو اس کا نشانہ بنے وہ بہرحال مظلوم قرار پائے گا اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ظلم وجبر کبھی کسی کو راس نہیں آتا۔ ظلم کے دن ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں لیکن ظالم کو اس کا احساس بالعموم وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
اپنے بیتے لمحوں کا ذکر کرتے کرتے مشرقی پنجاب کے موجودہ حالات سرراہے ہی نوک قلم پر آ گئے لیکن اس سر زمین سے اس علاقے کے کھیتوں اور کھلیانوں سے ہمیں جو جذباتی تعلق ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں 47ء کے فسادات میں ہلاک و زخمی ہونے والے ہمارے عزیزوں کی آہیں اور کراہیں آج بھی ہمارے ذہنوں کو پریشان کئے دے رہی ہیں۔ اس لئے قدرتی طور پر اس علاقہ میں پیش آنے والے واقعات سے ہمیں دلچسپی ہے۔ اس بناء پر موجودہ صورت حال کا تذکرہ کچھ ایسا بے محل بھی نہیں۔
میں نے جہاں اپنے بعض بزرگوں اور عزیزوں کا ذکر کیا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس نوجوان کو بھی خراج تحسین پیش کروں جس نے اپنے گاؤں کے ایک سو پچیس جانبازوں کو عسکری تربیت دینے کے لئے شبانہ روز محنت کی۔ یہ نوجوان آج کہاں ہوگا، اس کے لواحقین کسی بستی اور کس علاقے میں آباد ہوں گے، افسوس کہ مجھے اس کا علم نہیں۔ لیکن جس کی تربیت نے اپنے گاؤں کے نوجوانوں کو حملہ آوروں کے مقابلے میں جرأت و عزیمت کا ثبوت دیتے ہوئے مردانہ وار ڈٹ جانے کے قابل بنایا، میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ سیاستدانوں میں، علماء میں، ابل قلم میں، کسی کا کوئی بھی آئیڈیل ہو، اس دور کے نوجوانوں میں فوج سے ریٹائر ہونے والا حوالدار عبدالحق ہی میرا آئیڈیل تھا جس سے تربیت حاصل کرنے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہے۔
اس مرحلہ پر اپنے تعارف کے تکلف سے دور رہتے ہوئے، اتنا ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ میں جس گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور جس گاؤں میں عبدالحق سے لے کر چودھری محمد بوٹا، چودھری غلام علی، بابا محمد جمیل اور لالہ نور محمد جیسی شخصیتوں کو جنم دیا اور پالا پوسا اسی گاؤں کی ایک شخصیت خواجہ دل محمد بھی تھے۔ خواجہ صاحب اسلامیہ ہائی سکول دسوہہ میں سیکنڈ ماسٹر تھے اور اکثر و بیشتر قائم مقام ہیڈ ماسٹر کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر مرزا محمد بیگ بدخشانی استادوں میں سے بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے فرشتہ سیرت انسان تھے کہ ان کے حسن اخلاق کے اثرات نے بعض اساتذہ اور طلبہ کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ خواجہ دل محمد جن کے نام کے ساتھ ’’سمرا‘‘ بھی لکھا جاتا تھا بھی اپنے ہیڈ ماسٹر سے بے حد متاثر تھے۔ میں نے سب سے پہلے انہی کے ہاتھوں میں مولانا مودودی کا رسالہ ترجمان القرآن دیکھا۔ یہ 1940ء، 41ء کی بات ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات مولانا مودودی سے بھی خاصے مانوس و متاثر تھے۔ خواجہ دل محمد سمرا تحریک پاکستان کے ابتدائی دور میں اپنے گاؤں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ میں طالب علمی سے فارغ ہونے کے بعد جب ملازمت کے سلسلے میں لاہور چلا آیا تو اس کے بعد جب بھی گاؤں جانے کا موقع ملا میں اپنے محترم استاد خواجہ دل محمد سمرا سے ضرور ملاقات کرتا اور سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ، اپنے علاقہ بالخصوص اپنے گاؤں میں تحریک کے حق میں فضا ہموار کرنے کیلئے منصوبہ بندی میں تعاون بھی کرتا۔ گاؤں کے جو نوجوان خواجہ دل محمد سمرا کے زیادہ قریب رہے ان میں میرا اس دور میں آئیڈیل نوجوان حوالدار عبدالحق بھی تھا۔ جس نے شروع ہی سے نوجوانوں کی عسکری تربیت کی ضرورت کا احساس دلایا چنانچہ گاؤں بھر سے ایک سو پچیس نوجوانو کو منتخب کر کے انہیں فوجی اصطلاح میں پانچ پلاٹونوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہر پلٹن کا ایک کمانڈر ہوتا تھا اور ایک ڈپٹی کمانڈر، حوالدار عبدالحق خود کمانڈر انچیف تھا۔ مجھے بھی ایک پلاٹون کا کمانڈر بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ہمارے گاؤں میں چونکہ غیر مسلم بھی آباد تھے اور خصوصیت کے ساتھ گاؤں کے ایک حصہ میں سکھوں کی آبادی تھی اس لئے ہم اپنی عسکری تربیت کو رازداری سے جاری رکھے ہوئے تھے چنانچہ بعض زمینداروں سے درخواست کر کے ہم نے ان کے کماد کے کھیتوں میں چند مرلے جگہ سے کماد کاٹ دیا اور اس خالی جگہ میں چھپ کر ہمیں ورزش بھی کرائی جاتی تھی اور اسلحہ کے استعمال کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
جس اسلحہ کی تربیت ہمیں دی جاتی تھی اس میں کسی نوعیت کا جدید اسلحہ شامل نہیں تھا بلکہ وہی اپنے گاؤں کے لوہار کی بھٹی میں تیار کر دہ تلوار اور برچھی اور آتش بازی کے ماہروں سے حاصل کردہ پٹاخے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی اس انتہائی اہم حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ورزش اور اسلحہ کی تربیت نے ہمیں جسمانی مضبوطی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط کا پابند بننا بھی سکھایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے جذبہ ایمان کو جلا بخشنے والی تقریروں اور حفیظ جالندھری کے شاہنامہ کے اجتماعی مطالعہ نے ہمیں اس قابل بنایا کہ اسلحہ جدید ہو یا قدیم بلکہ اسلحہ کا وجود تک بھی نہ ہو تو ایک بندہ مومن اپنی آزادی، عزت اور ایمان کے تحفظ کے لئے توپ و تفنگ کے مقابلے میں بھی ڈٹ جاتا ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے ہمیں مسلح فوجی دستوں کے مقابلے میں جواں مردی کے ساتھ صف آراء ہونے کی ہمت دی۔ مسلح دستے ہمارے غیر مسلح نوجوانوں کے مقابلے میں یوں دم دبا کر بھاگتے دیکھے گئے جیسے وہ ہر قسم کے اسلحہ سے محروم ہوں اور ہم سب انتہائی جدید اسلحہ سے لیس۔ ان میں گھڑ سوار بھی ہوتے تھے اور دستی بموں سے لے کر بھاری بھر کم اسلحہ اٹھائے ہوئے جغادری قسم کے وحشی حملہ آور بھی ہوتے تھے لیکن جب ان کا سامنا کیا جاتا تو وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑی لگا کر یوں بھاگتے جیسے ان کا مقابلہ اپنے سے کئی گنا زیادہ فوج سے ہے اور فوج بھی ایسی جس کے پاس حملہ آوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر اور جدید تر اسلحہ ہے۔
میں نے اس صورت حال کے مظاہر اور مناظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے ہوتے تو زندگی کی یہ انتہائی اہم اور خوشگوار یادیں آج تک میرے ذہن میں اس طرح محفوظ نہ ہوتیں۔ جن دو معرکوں کا ذکر اس سے پہلے کر چکا ہوں ان میں پہلا معرکہ ’’دواکھری‘‘ کا ہے۔ دواکھری ہمارے گاؤں سے تقریباً ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ 16 اگست کو شام کے وقت ہمارے ذرائع خبر رسانی نے اس گاؤں پر سکھوں کے حملے کی اطلاع دی۔ ہم اپنی اپنی پلاٹونوں سمیت اپنے لئے مخصوص مقامات پر لائن اپ (Line-up) ہو گئے۔ حوالدار عبدالحق نے مجھے اس ڈیوٹی پر مامور کیا کہ میں اپنی پلٹن لے کر فی الفور دواکھری پر حملہ آوروں سے نبرد آزما ہونے کیلئے موقع پر پہنچ جاؤں۔ میں نے تکبیر کے نعروں کی گونج میں اپنے پچیس میں سے اکیس جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے دواکھری کا رخ کیا۔ (صف بندی کے اعلان تک میری پلاٹون کے چار جوان ہمارے ساتھ شامل نہیں ہو سکے تھے) اپنے ڈپٹی کمانڈر مسٹر اصغر کو میں نے نصیحت کی کہ وہ دواکھری پہنچنے کے بعد مشرق کی جانب سے حملہ آوروں کو للکارے تاکہ وہ شمال کی طرف سے مغرب کی جانب بھاگنے پر مجبور ہو جائیں۔ جدھر میں گیارہ نوجوانوں کو لے کر اس طرح مورچہ بند ہو گیا کہ دشمن کو قریب آنے تک ہماری موجودگی کا علم نہ ہو سکا۔ میری یہ جنگی حکمت عملی کامیاب رہی۔ حملہ آور ڈرے سہمے بد کے ہوئے سراسیمگی کے عالم میں بھاگے بھاگے ہمارے قریب آ پہنچے۔ ہمیں دیکھ کر دشمنوں کے سرغنہ کو یہ دھوکا ہوا کہ ہم سکھوں کے قریب یگاؤں ’’بگالی پور اور ڑھا‘‘ سے ان کی مدد کے لئے آئے ہیں، اس دھوکا کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک اہم وجہ یہ تھی کہ میں نے ’’الحرب خدعتہ‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے سر پر اکالیوں کے مخصوص رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ یہاں اس امر کی وضاحت کر دوں کہ دفاع کے موقع پر میں اپنا آہنی خول پگڑی کے اوپر باندھتا تھا اور ایسی صورت میں جس کا سامنا دواکھری میں کرنا پڑا زرد رنگ کی پگڑی آہنی خود کے اوپر باندھتا تھا چنانچہ مجھے احساس ہوا کہ میرا مد مقابل دھوکے میں آ گیا ہے، پھر بھی میں نے اسے خبر دار کیا اور للکارا تو اس نے مقابلے کرنے کی بجائے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ اس کا ایک خالی ہاتھ تھا اور دوسرے ہاتھ میں کرپان تھی اور وہ سراپا خوفزدہ تھا لیکن میں نے اسے کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھا اس لئے کہ میرے کانوں میں دواکھری کے لوگوں کی چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں اور حملہ آوروں کے خوف سے بھاگنے والے اس گاؤں کے مکینوں کو اس عالم میں قطار در قطار دیکھ رہا تھا کہ عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو گود میں اٹھائے اور مرد اپنے اپنے حقے سنبھالے پناہ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ میں نے حملہ آوروں کے سر غنہ کو للکارنے کے ساتھ ہی حوالدار عبدالحق کی تربیت کے مطابق 45 درجے کا زاویہ بناتے ہوئے تکبیر کا نعرہ بلند کر کے پوری قوت سے اپنی برچھی اس کے سینے میں پیوست کر دی جس سے وہ لڑھک کر گر گیا۔ میرے ساتھی اور ماموں زاد بھائی اقبال نے تلوار کے وار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اب ہم دوسروں کی طرف لپکے اور جو کچھ جس کے لئے ممکن ہوا حملہ آوروں کی پسپائی کیلئے، تیز رفتاری کے ساتھ کر گزرے۔ جلدی تو ہمیں ویسے بھی ہونی چاہئے تھی کہ اس قسم کے معرکہ آرائی میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری طرف چونکہ پولیس کی آمد کی اطلاع بھی مل چکی تھی اس لئے ہمیں چھپ چھپا کر واپس اپنے گاؤں بھی پہنچنا تھا۔ چند ہی لمحوں میں اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر ہمارے دونوں گروپ ازسر نو صف بندی کر چکے تھے باہمی مشورہ کے بعد ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا اس لئے کہ حملہ پوری طرح پسپا کیا جا چکا تھا اور پولیس بھی متاثرہ گاؤں میں داخل ہونے والی تھی۔ ہم ایک ایک، دو دو کر کے مختلف راستوں سے اپنے گاؤں پہنچ گئے۔ میرا سامنا سب سے پہلے اپنے بھائی چودھری قدرت علی سے ہوا۔ ان کا سوال تھا کہ سب لوگ خیریت سے واپس آ گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ حملہ آوروں میں سے تو کچھ لوگ ہماری برچھیوں اور تلواروں کا نشانہ بنے ہیں لیکن الحمدللہ ہمارے نوجوان سب کے سب خیر و عافیت سے واپس آ گئے ہیں۔ بھائی صاحب نے مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی اور سیدھا گھر جانے کے لئے کہا۔ گھر پہنچا تو گھر کے بیرونی دروازے میں میں نے اپنی والدہ کو منتظر پایا۔ انہوں نے میری برچھی کو دیکھتے ہی اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھے کپڑے تبدیل کرنے کو کہا۔ ادھر میں کپڑے تبدیل کر رہا تھا اور میری والدہ برچھی کا پھل گھر کی اس واحد پختہ جگہ سے رگڑ رگڑ کر صاف کر رہی تھیں جو دیہاتی گھروں میں گھڑے رکھنے کے لئے بنائی جاتی تھی۔ میرے سارے گھر میں یہی وہ حصہ تھا جسے سیمنٹ سے پختہ کیا گیا تھا۔ اپنی والدہ سے دعائیں لینے کے لئے میں نے انہیں اپنی دواکھری کی کامیابیوں سے آگاہ کیا جس پر والدہ خوش تو ہوئیں لیکن خوش ہونے سے زیادہ انہوں نے میری اس اطلاع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے تمام نوجوان دواکھری کا معرکہ سر کرنے کے بعد بخیریت واپس آ گئے ہیں۔
یہ تو تھا گھر میں واپسی کا مرحلہ لیکن گھر سے روانگی کا منظر بھی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس معرکہ کیلئے خود والدہ محترمہ نے مجھے رخصت کیا تھا۔ میں ان کے قریب ہی بیٹھا تھا کہ خطرے کی وسل کی آواز سنائی دی۔ یہ وسیل یکے بعد دیگرے تین دفعہ سننے میں آیا۔ ہماری تربیت کے مطابق جس کا مطلب یہ تھا کہ کہیں پر حملہ ہو چکا ہے، جس کے مقابلے کیلئے بلا تاخیر صف آرا ہونا ہے۔ خطرے کے اس الارم سے خود کارکن ہی نہیں عام دیہاتی بھی واقف تھے چنانچہ والدہ محترمہ کو بھی پیش آمدہ صورت حال کا صحیح صحیح اندازہ ہو چکا تھا۔ والدہ نے مجھے دودھ کا چھنا بھر کر دیا اور ان ولولہ انگیز الفاظ سے رخصت کیا: ’’بیٹا، عزت اور ایمان کی خاطر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو پرواہ نہیں کرنی‘‘۔
والدہ کی ہدایت کے مطابق کپڑے تبدیل کرنے کے بعد میں گھر سے باہر نکلا تو پولیس والے لاشیں اٹھائے گاؤں کے باہر نمبردار چودھری غلام قادر اور دوسرے لوگوں سے شکوہ کر رہے تھے کہ آپ کے لڑکوں نے دواکھری میں جا کر ان لوگوں کو قتل کیا ہے۔ پولیس کے انچارج ایک اے ایس آئی جو اتفاق سے مسلمان بھی تھے، انہیں لوگ میر صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔ پتلے دبلے غصیلے سے آدمی تھے، خاصی گرمی جھاڑ رہے تھے۔ میں چونکہ لاہور سے گیا ہوا تھا اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں شمار ہوتا تھا، گاؤں والوں نے مجھے اس تھانیدار سے گفتگو کرنے کیلئے اپنی نمائندگی کا فریضہ سونپا چنانچہ میں نے ملی جلی اردو انگریزی میں میر صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہماری اطلاع تو یہ ہے کہ دواکھری پر حملہ سکھوں نے کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گاؤں والوں کے ہاتھوں کچھ حملہ آور مارے گئے ہوں۔ جب آپ خود کہتے ہیں کہ یہ لاشیں آپ دواکھری سے لائے ہیں تو آپ کو علم ہونا چاہئے کہ دواکھری میں سکھوں کا ایک بھی گھر نہیں ہے۔ ان لاشوں سے نظر آتا ہے کہ یہ لوگ حملہ آور تھے اور پھر یہ شکایت کہاں تک بجا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی زیادتی کی سزا خود بھگتی ہے۔ میر صاحب کو ایک ہی اصرار تھا کہ اس گاؤں (بیرچھا) سے کچھ نوجوان دواکھری گئے ہیں۔ یہ لاشیں انہی کے ’’کارنامے‘‘ کا نتیجہ ہیں۔ بہرحال وہ اپنی بات پر مصرر ہے اور نمبردار سے کہا کہ اپنا آدمی دیں جو ان لاشوں کے ہمراہ تھانہ تک ہمارے ساتھ جائے۔ ہر شخص لاشوں کے ساتھ جانے سے کنی کترا رہا تھا، لیکن نمبردار کے کہنے پر گاؤں کا چوکیدار ان کے ساتھ ہو لیا جو اپنے ’’منصب‘‘ کے اعتبار سے حکم عدولی کی جرأت نہیں کر سکتا تھا، دوسرے اسے کسی قسم کی گرفت کا بھی چنداں خطرہ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی دواکھری کے معرکے کا ڈراپ سین ہوا۔
{rsform 7}