ارشد صاحب لاٹھی پر دونوں ہاتھ ٹکائے اتنی دیر سے بولے جارہے تھے۔ اچانک سعیدہ خاتون کے منہ سے نکلا۔ ’’حیرت ہے!‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ میں اتنی دیر کیا کہے جارہے ہوں اور تم نے جواب میں یہ کیا کہا۔ حیرت ہے۔ کس بات پر حیرت ہے۔‘‘ ارشد صاحب کہتے کہتے جھلا اٹھے۔ وہ کافی دیر سے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے ۔ ہمیشہ کی طرح آج سعیدہ خاتون نے ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔
******************
’’یہ گملہ کس نے توڑا ہے؟‘‘ ارشد آفس سے آتے ہی گرجا۔گیارہ سالہ صائم دوڑا چلا آیا۔
’’باباوہ کل ذیشان آیا تھا ناں۔ اس نے پاؤں مار کر گملہ گرا دیا تھا۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ ‘‘ صائم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
’’جھوٹ بولتا ہے ۔ میرے آگے زبان چلاتا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے ارشد نے اسے لاتوں اور گھونسوں پر رکھ لیا۔ ساتھ ہی پودوں کو پانی دینے والا پائپ رکھا ہوا تھا۔ ارشد نے جوتا رکھ کر پائپ اٹھالیا۔صائم چیختا رہا۔ کچن کے دروازے پر کھڑی سعید ہ کی بالکل ہمت نہ ہوئی کہ اسے بچا ہی لیں۔
کافی دیر مارنے کے بعد وہ پاؤں پٹختے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ اس کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ جوتوں لاتوں اور پھر پائپ سے مار کھانے کے باوجود بھی صائم نہیں مانا تھا کہ گملہ اسی نے توڑا ہے۔ وہ اپنی پہلی بات پر قائم تھا۔
سعیدہ بے جان ٹانگوں کے ساتھ کچن سے نکلی اور صائم کے کمرے میں چلی آئی۔ صائم بیڈ پر بیٹھا رو رہا تھا۔ سعیدہ نے اس کی شرٹ ہٹا کر دیکھی۔ کمر پر لمبے لمبے سرخ نشان پڑے تھے۔ اس کے کب سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے۔ صائم کو سینے سے لگا کر وہ زاروقطار رونے لگی۔
’’ماما! آپ کو پتہ ہے ناں گملہ ذیشان نے گرایا تھا۔ پھر بابا نے مجھے کیوں مارا۔ کیوں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں درد ، سوال ، الجھن سب کچھ تھا۔ سعیدہ کوئی جواب نہ دے سکی۔
ارشد شہر کے مشہور سکول میں پڑھاتا تھا۔ اپنی قابلیت اور نرم مزاجی کی بدولت ٹیچرز اور سٹوڈنٹس میں یکساں مقبول تھا۔ کسی کے جرنل سائن ہونے سے رہ جاتے یا کسی کو کوئی ٹاپک سمجھ نہ آتا ارشد کی شفقت و محبت دیدنی ہوتی۔ کوئی بچہ فیل ہو جاتا تو وہ اتنے پیار سے اس کی حوصلہ افزائی کرتا کہ وہ اگلے امتحان میں نمایاں نمبرز سے پاس ہوجاتا۔ جس کلاس کوارشد پڑھاتا وہ کلاس خوش قسمت گردانی جاتی تھی۔ ہر بچے کی خواہش ہوتی کہ سر ارشد کی کلاس میں ہو۔
گھر میں ارشد نے ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘ والا معاملہ رکھا ہو اتھا۔ اپنی اکلوتی اولاد صائم پر ہر بات میں شک کرتا اور اس کے سچ کو بھی جھوٹ گردانتے ہوئے بات بات پر اسے روئی کی طرح دھنک دیتا۔سعیدہ کی بھی اس معاملے میں کوئی بات نہ سنتا۔
شام تک وہ اکیڈمی اور ہوم ٹیوشنز میں مصروف رہتا۔ گھر آتے ہی صائم پر برسنے لگتا۔ سارے دن کی تھکاوٹ اور چڑچڑا پن معصوم بچے پر نکال دیتا۔
’’آرام سے بند کیا کر دروازہ! شرم نہیں آتی۔ ذرا احساس نہیں ہے۔ اپنے پیسے کمائے گا پھر پتہ لگے گا۔ مفت خورہ۔ ‘‘ صائم نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دروازہ بند کیا تو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے ارشد کا پارہ ہائی ہو گیا۔ سارا راستہ وہ وقفے وقفے سے صائم کو طعنے دیتا رہا۔
’’صائم م م م !‘‘ ارشد اپنے مخصوص انداز میں گرجا۔ صائم جو گھر میں آئے ڈھیر سارے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے میں مصروف تھا، بھاگتا ہو ا آیا۔ اس دن دعوت تھی۔ سعیدہ کے سسرال اور میکے سے سب جمع تھے۔ ارشد کی گرجدار آواز سن کر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔
’’یہ کیا ہے!‘‘ روم کولر کے ایک نچلے کونے سے پانی ٹپک رہا تھا۔ کزنز کے ساتھ کھیلنے کے چکر میں صائم نے جلدی جلدی کولر کے پانی بھرا تو کچھ زیادہ بھر دیااور وہ ایک کونے سے ٹپکنے لگا۔ سعیدہ نے وہاں ایک تولیہ رکھ چھوڑا تھاجس نے سارا پانی جذب کر لیا تھا۔
’’زیادہ پانی کیوں ڈالا؟ بتاؤ! اتنے بڑے ہو گئے ہو کوئی کام ڈھنگ سے کیوں نہیں کر سکتے۔ کیوں۔۔‘‘ اتنا کہتے کہتے ارشد نے اس کے بالوں کو پکڑ کرزوردار جھٹکا دیا اور صائم لڑھکتا ہوا ساتھ کھڑے بچوں کے قدموں میں جا گرا۔ کچھ بچے دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے۔
روتا ہوا صائم اٹھ کر کھڑا تو ہو گیا لیکن اس نے اپنے ہم عمر بچوں کے آنکھوں میں تمسخر دیکھا تو اس کی عزت نفس ہمیشہ کے لیے گر گئی۔ اس کے دل میں بابا سے نفرت کی کونپل جم لینے لگی۔
’’سوری بابا ! سوری بابا!‘‘ اس کے منہ سے نکلتا رہا لیکن ارشد پروحشی پن طاری ہو چکا تھا۔ اس نے گھر آئے مہمانوں کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا اور صائم کو جوتوں سے مارتا رہا۔
وقت گزرتا رہا۔ ارشد کی روش نہ بدلی۔ وہی آئے روز کی مارپیٹ وہی سعیدہ کا صائم کے جسم پر پڑے نشان دیکھ دیکھ کر رونا۔ لیکن صائم اب روتا نہیں تھا۔ نہ جانے کیوں اس کے آنسو ہی نہیں نکلتے تھے۔ سخت سے سخت مار کھانے کے باوجود وہ بس بابا بے تاثر نگاہوں سے دیکھتا رہتا تھا۔ ارشد کو اور غصہ آنے لگتا ۔ ’’دیکھو میرے سامنے نظر اٹھاتا ہے، آنکھیں نکالتا ہے مجھے۔ تجھے چھوڑوں گا نہیں میں۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ صائم کو اور زور زور سے مارنے لگتا۔
یونہی ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں ڈھل گئے۔
*****************
’’ابھی کل ہی کی دیکھ لو۔ میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ صائم باہر سے آیا اور کمرے کے سامنے سے گزر کر چلا گیا۔ سلام کرنا تک گوارا نہیں ہوا اس کو۔ دیکھو ذرا۔ یہ اولاد ہے جس کی خاطر ہڈیاں گھس گئیں ہماری۔ ‘‘ ارشد صاحب روز کی طرح شکوہ کناں تھے۔ سعیدہ بیگم سنتی رہتیں۔
’’ارے نوکری کیا لگ گئی ہمارے سپوت کی، سمجھو پر لگ گئے۔ سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے۔ میں نے کہا۔ مٹھائی کھلاؤ تو کہنے لگا ۔ ما ما کو کھلا دی ہے۔ ارے میں کہاں ہوں اس سارے میں۔ میں کیا سوتیلا باپ ہوں اس کا۔ ہمیشہ ایسے ہی کرتا ہے میرے ساتھ۔‘‘
ارشد صاحب کے پاس صائم کے خلاف ایک پوری چارج شیٹ تھی۔ جوں جوں صائم بڑا ہوتا گیا وہ ارشد صاحب کے بس سے بھی نکلتا گیا۔ اب وہ ایک جوان صحت مند شخص تھا۔ جو ایک مشہور فرم میں مینجر کے عہدے پر فائز تھا۔ یہ وہ صائم نہ تھا جس کو ارشد صاحب اپنے سامنے ذرا سی بھی اونچی آواز میں بولنے پر ٹھڈوں سے مار تے تھے۔
اس کے دل میں ارشد صاحب سے نفرت کی شاخ ایک تناور درخت بن چکی تھی جس کو سعیدہ بیگم لاکھ کوشش کے باجود اکھاڑ نہیں سکی تھیں۔
’’بھئی ہم نے تو ایسے بیٹے نہیں دیکھے۔ دو منٹ کو میرے پاس آ کرنہیں بیٹھتا۔ بوڑھا باپ ہو ں اس کا۔ ساری عمر کمانےاور اسے کھلانے میں گزر گئی۔ کل کھانے کی میز پر میں کچھ کہنے لگا تو کیسے مجھے خاموش کرا دیا۔ بابا میں آپ سے نہیں پوچھ رہا۔ دیکھو بھلا۔ میرے سے نہ پوچھو لیکن میں اپنی رائے تو دے سکتا ہوں۔ فیلڈ ہے میری۔ میں ۔۔‘‘
اچانک سعیدہ بیگم کے منہ سے نکلا۔ ’’حیرت ہے!‘‘
’’بھئی کیا مطلب ۔ میں کیا کہ رہا ہوں۔ ۔ اور تم ۔۔ بھلا کس بات پر حیرت ہے۔‘‘ ارشد صاحب کہتے کہتے جھلا ہی اٹھے۔
’’آپ نے اپنی ساری محبت اور شفقت غیروں پر لٹادی اور صائم کے حصے میں صرف مار پیٹ، جھڑکیاں اور طعنے آئے ۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے صائم کو ٹھڈے اور جوتے مارے۔اس کے سچ کو بھی جھوٹ کہ کر روئی کی طرح دھنک دیا۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا آپ نے صائم کو پیار کیا ہو، پاس بٹھاکر کوئی بات سمجھائی ہو، ماتھا چوما ہو۔ مجھے حیرت ہے کہ پھر بھی آپ پریشان ہوتے ہیں کہ آپ کا جوان بیٹا آپ سے دور دور کیوں رہتا ہے۔نفرت سی کیوں کرتا ہے آپ سے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ آپ کانٹے بو کر پھول اگنے کی خواہش کیوں کرتے ہیں۔کیا بتاؤں ! حیرت ہے بھئی! اوربہت زیادہ حیرت!‘‘
ارشد صاحب خاموش رہے۔ سعیدہ بیگم سبزی کی ٹوکری اٹھائے باہر نکل گئیں ۔شاید وہ تھوڑی دیر اور بیٹھی رہتیں تو ارشد صاحب کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو دیکھ سکتیں۔زندگی میں پہلی بار ...دکھ، افسوس اور پچھتاوے کے آنسو !
***************
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اورکہا : کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا: ہاں ، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں ) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم ! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے ، ( یہ سن کر ) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے!‘‘ (سنن ابن ماجہ)