’’یار شارق…! تم نے تو آج کمال کردیا‘‘سعید نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’تینوں کا برابر حصہ ہوگا نا…؟‘‘ زبیر نے شارق سے پوچھا۔
’’ارے واہ…!!‘‘ شارق نے آنکھیں نکال کر کہا۔ ’’کیوں برابر برابر ہوگا؟‘‘ استاد صاحب کا بٹوہ میں نے اکیلے چرایا ہے… اس لیے اس پر پورا حق میرا ہے… البتہ تم دونوں چوں کہ میرے دوست ہو اس لیے تم کو سو سو روپے دے دوں گا‘‘
شارق کی اس بات پر دونوں کے منہ لٹک گئے، یہ تینوں اپنی کلاس کے سب سے شرارتی اور چور بچے تھے، آج شارق نے موقع پاکر چپکے سے اپنے استاد صاحب کا بٹوہ چرالیا تھا۔
استاد صاحب بہت زیادہ پریشان ہوگئے تھے ، ایک پریشانی بٹوہ گم ہونے کی اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ کلاس میں کوئی چور ہے اور تالاب کی ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے۔
خیر…استاد صاحب نے بجھے بجھے انداز میں کلاس کے طلبا سے کہا تھا کہ کل سب ’’قلم‘‘ پر مضمون بناکر لانا ، جس کا مضمون سب سے اچھا ہوگا اس کو انعام ملے گا‘‘
’’شارق…!‘‘ سعید کہنے لگا: ’’کیا تم مضمون لکھو گے؟‘‘


’’یار…! استاد صاحب نے انعام دینے کا کہا ہے ، لکھنا تو پڑے گا ہی…‘‘
’’مگر یہ تو طے ہے کہ وہ انعام اسماعیل کو ہی ملے گا، کیوں کہ سب سے اچھا مضمون نگار کلاس میں وہی ہے… کم بخت …پتا نہیں کونسے بادام کھاتا ہے‘‘
’’اونہہ!…‘‘ شارق منہ بناکر کہنے لگا: ’’اگر اس کو انعام ملابھی تو پانچ یا دس روپے ملیں گے، کیوں کہ استاد صاحب کا بٹوہ تو میرے پاس ہے نا‘‘ شارق کی اس بات پر تینوں قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔
٭٭٭٭٭
’’السلام علیکم…‘‘استاد صاحب نے کلاس میں داخل ہوکر سب کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ…‘‘تمام بچوں نے بآواز ِ بلند جواب دیا ، سوائے شارق اور اس کے دونوں ساتھیوں کے۔
’’ہاں، بھئی…! ایک ایک کرکے اپنا اپنا مضمون سنائیں، دیکھتے ہیں کس نے کیسا مضمون بنایا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر استاد صاحب نے ایک ایک سے مضمون سننا شروع کردیا…ہوتے ہوتے شارق کی باری آئی تو اس نے اپنا یہ مضمون سنایا:
’’قلم مختلف قیمتوں کے ہوتے ہیں ، بعض بہت مہنگے ، بعض بہت سستے ، جو مہنگے ہوتے ہیں وہ چوری ہوجاتے ہیں ، جو سستے ہوتے ہیں وہ مختلف لوگ مختلف انداز سے استعمال کرتے ہیں ، درزی کان پر رکھتے ہیں، بچے ان سے دودھ میں چینی گھولتے ہیں اور امی ان سے شلواروں میں ناڑے ڈالتی ہیں‘‘
اس کا یہ غلط سلط مضمون سن کر پوری جماعت ہنسنے لگی۔استاد صاحب کا مارے غصے کے برا حال تھا، شارق نے آگے اور سنایا:
’’اور مزے کی بات یہ ہے کہ قلم استاد صاحب کے سزا دینے کے بھی کام آتا ہے، جب وہ اسے کسی بچے کی دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر دباتے ہیں‘‘
استاد صاحب نے چیخ کر کہا: ’’چپ ہوجائو…!یہ کیا بکواس لکھ کر لائے ہو؟‘‘
شارق دم سادھے چپ چاپ بیٹھا رہا۔
’’تم نے کلاس روم کو مذاق سمجھا ہوا ہے… میں نے مضمون بنانے کا کہا تھا ، الٹے سیدھے تبصروں کا نہیں…!!‘‘
’’چلو اسماعیل…! تم اپنا مضمون سنائو‘‘
اسماعیل نے بڑے اطمنان سے اپنا مضمون سنانا شروع کیا:
’’قلم اللہtکی ایک بہت بڑی نعمت ہے، چناں چہ قرآن مجید کی سب سے پہلی آیات میں بھی اللہ tنے قلم کی نعمت کا احسان جتلایا ہے، یہی نہیں ، بل کہ اللہ tنے تو قرآن کریم میں قلم کی قسم بھی کھائی ہے اور جس سورت میں یہ قسم مذکور ہے اس پوری سورت کا نام ہی قلم رکھ دیا ہے، چناں چہ سورۂ قلم کی ابتدائی آیت یہ ہے: {نٓ، وَالقَلَمِ وَمَایَسْطُرُوْنَ} قسم ہے قلم کی اور جو وہ فرشتے لکھتے ہیں…‘‘
اسماعیل کا مضمون سب توجہ سے سن رہے تھے، اس نے بہت ہی پیارا ،دل چسپ اور علمیت سے بھرپور طویل مضمون بنایا تھا، پھر آخر میں کہنے لگا:
’’اب میں اپنے اس مضمون کا اختتام علامہ اقبال مرحوم کے ایک شعر پر کرتا ہوں:
؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
’’سبحٰن اللّٰہ… سبحٰن اللّٰہ…‘‘
استاد صاحب سمیت سب بے اختیار سماعیل کو خوب داد دینے لگے۔ پھر استاد صاحب کہنے لگے:
’’دیکھو !…یہ ہوتا ہے مضمون…! بھئی! واہ…ماشاء اللّٰہ…بہت خوب!!‘‘
استاد صاحب نے خوب دعائیں دیں ، پھر باقی طلبا سے مضمون سننے لگے۔
شارق اندر ہی اندر کڑھنے لگا اور اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے اسماعیل کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھنے لگا کہ شاید اسے میری نظر ہی لگ گئے…سوچنے لگا کہ اب استاد صاحب اسماعیل سے کہیں گے کہ اپنی کاپی میری ٹیبل پر رکھ دو اور پھر کل اسے بلاکر انعام دیں گے… کیا اس کو انعام ملنا چاہیے… نہیں…انعام کا ھق دار صرف میں ہوں …مگر …مگر …میں کیا کروں …کونسی ایسی ترکیب استعمال کروں کہ یہ اسماعیل انعام نہ لے سکے… کیا کروں؟…کیا کروں؟…
سوچتے سوچتے اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی… اس نے سوچا کہ… اگر استاد صاحب کے بٹوے کی چوری کا الزام اسماعیل پر آجائے تو اسے انعام تو دور کی بات… استاد صاحب کے بٹوے میں سے جو چار ہزار مجھے ملے ہیں وہ بھی اسی کو بھرنے پڑیں گے…
یہ سوچتے ہی اس نے جلدی سے اپنی کاپی کھول کر اس کے ایک صفحے پر لکھنا شروع کیا:
’’استاد صاحب…! میں بہت شرمندہ ہوں…مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے میں نے آپ کا بٹوہ چرالیا تھا، اس میں سے چار ہزار روپے نکلے ، جو کہ میں استعمال کرچکا ہوں ، مگر ان شاء اللہ جلد ہی لوٹا دوں گا…فقط اسماعیل‘‘
یہ لکھ کر اس نے تیزی سے صفحہ پھاڑا اور اسماعیل کی مضمون والی کاپی کے اندر چپکے سے ڈال دیا…اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا… مارے خوشی کے پھولا نہیں سمارہا تھا… سوچ رہا تھا کہ اسی موقع پر کہتے ہیں کرے کون، بھرے کون…
اچانک استاد صاحب نے آواز سے کہا:
’’اسماعیل…! اپنی کاپی میری ٹیبل رپ رکھ دو… تمھارا مضمون اس دفعہ پھر سب سے اچھا رہا…‘‘
اسماعیل خوشی خوشی اپنی جگہ سے اٹھا اور کاپی استاد صاحب کی ٹیبل پر رکھ کر اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا…شارق دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا…وہ جانتا تھا کہ اب اسماعیل کی خیر نہیں ہے۔
’’مبارک ہو ، بھئی اسماعیل…! تمھیں انعام ملنے والا ہے‘‘
شارق کا اتنا میٹھا جملہ سن کر اسماعیل جواباً مسکرایا تو سہی ، مگر حیران بھی ہوا ، کیوں کہ مبارک باد تو دور کی بات ، شارق تو اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیتا تھا۔
اچانک شارق نے دیکھا کہ استاد صاحب اسماعیل کی کاپی میں سے اس کے رکھے ہوئے کاغذ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بڑے غور سے اس کو پڑھ رہے ہیں…
شارق کا دل خوشی سے دھک دھک کرنے لگا…
استاد صاحب آہستہ آہستہ آئے اور اسماعیل کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا اور کہنے لگے:
’’تم…تم…تو چور نکلے…تم نے میرے سارے اعتماد کو پانی میں بہا دیا…‘‘
اور پھر ایک اور تھپڑ مارا…
شارق خوشی اور جوش کی ملی جلی کیفیت میں کیفیت میں کھڑا ہوگیا… اچانک اس کو اسماعیل کی آواز سنائی دی:
’’کیا ہوا شارق؟…یہ تم بیٹھے بیٹھے اچانک کھڑے کیوں ہوگئے؟‘‘ اسماعیل کی آواز سن کر شارق کو جیسے ہوش آگیا۔
وہ خیال ہی خیال میں کہاں پہنچ چکا تھا، جب کہ استاد صاحب ابھی تک اسی کاغذ کو دیکھنے میں مصروف تھے…اچانک استاد صاحب کی آواز گونجی:
’’شارق…!!ادھر آئو…‘‘
شارق حیران پریشان استاد صاحب کی طرف جانے لگا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیا؟ بجائے اسماعیل کو بلانے کے مجھے کیوں بلارہے ہیں؟
’’کہاں ہے میرا بٹوہ…؟‘‘استاد صاحب نے شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے شارق سے پوچھا۔
ساری کلاس حیرت سے شارق کو دیکھ رہی تھی۔
شارق کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے، کہنے لگا:
’’کونسا بٹوہ…؟‘‘
دفعۃً شارق کے دائیں کان میں سیٹی سی بجنے لگی… کیوں کہ اسے استاد صاحب کا تھپڑ اتنے زور سے پڑا تھا کہ پوری کلاس گونج اٹھی تھی۔
اور پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب استادصاحب نے اسے وہ کاغذ دکھایا ۔
اس نے دیکھا اس پ ایک طرف تو اسماعیل کی طرف سے چوری کا اقرار تھا جو اس نے اسماعیل کو پھنسانے کے لیے لکھ تھا، مگر دوسری جانب شارق کا اپنا بنایا ہوا قلم والا مضمون تھا جسے وہ پوری کلاس کو سنا چکا تھا۔
اب اسے احساس ہوا کہ اس سے کتنی زبردست غلطی ہوئی ہے، کیوں کہ قلم والا مضمون اس کا اپنا بنایا ہوا تھا، اسی کی رائٹنگ میں تھا اور اسی صفحے کی بشت پر اسی رائٹنگ میں چوری کا اقرار تھا…
بے چارہ شارق اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود ہی گر پڑا تھا…
اسے بٹوے کی چوری کی سزا بھی ملی اور جو رقم وہ کھا چکا تھا وہ بھی ابو سے لے کر دینی پڑی۔