حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درویش ایک جنگل میں سفر کررہا تھا اس نے ایک لنگڑی لومڑی کودیکھا جوبے بسی کی چلتی پھرتی تصور تھی۔ اس درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کاانتظام کیسے ہوتا ہوگا جبکہ یہ شکار کرنے کے بھی قابل نہیں ہے؟
درویش ابھی یہ بات سوچ رہاتھاکہ اس نے ایک شیر کودیکھا جومنہ میں گیڈر دبائے اس لومڑی کے نزدیک آیا۔ اس نے گیڈر کے گوشت کاکچھ حصہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کرچلا گیا۔ لومڑی نے اس باقی کے گوشت میں سے کھایا اور اپنا پیٹ بھرا۔
درویش نے جب سارا ماجرادیکھا توا سے اتفاق قرار دیا اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا۔ اگلے روز بھی وہی شیر منہ میں گیڈر دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی ویسے ہی چھوڑ دیا۔ لومڑی نے وہ باقی گوشت کھالیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق پہنچانے کاانتظام اللہ کی طرف سے ہے۔ اس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ میں بھی اب اپنے رزق کے لئے کوئی جستجو نہیں کروں گا اور میرا رزق اللہ عزوکل مجھے خود پہنچادے گا جس طرح لنگڑی لومڑی کو شیرے کے ذریعے رزق پہنچارہا ہے۔


درویش یہ فیصلہ کرنے کے بعد ایک جگہ جاکر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا رزق بھی اسے پہنچ جائے گا مگر کئی دن گزر گئے اس کے لئے کھانے کی کوئی شے نہ آئی یہاں تک کہ وہ کمزوری کی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے نزدیک ایک مسجد کے محراب سے یہ آواز سنی کہ اے درویش ! کیا تو لنگڑی لومڑی بننا چاہتا ہے یا پھر شیر جو اپنا شکار خود کرتا ہے جس میں سے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کوبھی کھلاتا ہے۔
مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ رزق پہنچانے کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ اچھا بھلا ہواور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ اللہ عزوکل نے جب رزق دینے کا وعدہ کیا ہے تووہ اسے بیٹھے بٹھائے رزق پہنچائے گا بلکہ اس کے لئے اسے جستجو کرنا ہوگی‘ محنت کرنا ہوگی پھر اللہ عزوجل سے امید لگانا ہوگی کہ وہ اس کے رزق کاانتظام کرے گا۔ وہ لوگ جو محتاج ہیں اور محنت نہیں کرسکتے ان کے لئے اللہ عزوجل نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ انہیں ان کا رزق ملتا رہتا ہے۔