سب سے زیادہ پیار

Share on Facebook  Share on Twitter  Share on Google +  Share by Email   Print 

دادا ابو کی وفات کے بعدگھر کے سب بچے چپ سے تھے۔ سردیوں کی چھٹیاں بھی ہو چکی تھیں۔ میں نے سب کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔

’’چاچو! آپ کوپتہ ہے  دادا ابو سب سے زیادہ آپ کو یاد کر رہے تھے۔‘‘ شزا نے بتایا۔

’’ہاں تو اس لیے ناں کہ دادا ابو سب سے زیادہ چاچو سے پیار کرتے ہیں۔‘‘ عمر نے بڑے مدبر انداز میں کہا۔

’’ہاں! ‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی۔ ’’جب ابو جی  فوت ہونے لگے

تو ان کی زبان پر بس میرا ہی نام تھا۔ ۔۔

خیر! پیارے نبی ﷺ کی کہانی کون کون سنے گا؟‘‘

سب  بچوں نے خوشی سے  ہاتھ کھڑے کر دیے۔  یہ میرا معمول تھا۔ میں جب بھی سے  چھٹیوں میں گھر آتا سب بچوں کو بٹھا کر نبی ﷺ کی باتیں کرتا۔

’’سب سے پہلے یہ بتاؤ پیارے نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے تھے؟‘‘

حریم بولی۔ ’’حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے۔ کیونکہ آپ نے پچھلی بار بتایا تھا کہ پیارے نبی ﷺ کہا کرتے تھے۔ ’’حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘

ننھا اسد کہاں پیچھے رہ سکتا تھا اس لیے اس نے بھی فوراً کہا۔’’اور جب پیارے نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے تو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ان کے ساتھ لاڈ کرتے تھے۔ اور نبی ﷺ ان کو بالکل بھی نہیں ڈانٹتے تھے۔‘‘

’’میں نے تو ایک جگہ پڑھا ہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔‘‘ پڑھاکو احمد کچھ الجھن میں بولا۔

’’ہاں! یہ بات بھی ٹھیک ہے کیونکہ ایک بار حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ تمام لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے۔ تو آپ ﷺ نے جواب دیا ۔ ’’عائشہ !‘‘ میں نے بتایا۔

’’لیکن چاچو! آج آپ کہانی نہیں سنا رہے۔ بس سوالات پوچھے جارہے ہیں۔‘‘ عمر نے کہا۔

’’ہاں! اصل میں میں آپ لوگوں کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ پیارمیرے اور آپ سے کرتے تھے۔‘‘

’’ہیں! کیسے؟‘‘ سب بچے یک زبان ہو کر بول اٹھے۔

’’اچھا ! بتاتا ہوں۔ آپ لوگ خاموش ہوں تو ہی کچھ کہوں گا۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو سب خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ ننھے اسد نے تو ہونٹوں پر انگلی بھی رکھ لی۔

’’آپ کو پتہ ہے جب آپ کے دادا ابو فوت ہو ئے تو وہ میرا نام لے رہے تھے۔  کیونکہ وہ میرے سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ جب حضرت ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام  پیارے نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کی روح قبض کرنے لگے تو آپ ﷺ نے اس نازک وقت میں صرف اپنی امت کو یاد کیااور اللہ سے سوال کیا کہ میرے بعد میری امت کا کیا ہوگا؟ جب اللہ تعالیٰ  نےوحی بھیجی کہ آپ کی امت کو ہم تنہا نہیں چھوڑیں گے تب آپ ﷺ کو اطمینان ہوا ۔دیکھا بچو! انتقال کے وقت بھی پیارے نبی ﷺ ہمیں نہیں بھولے۔ اور تو اور جب قیامت کا سخت ترین دن ہو گا اور جہنم کی آگ سامنے دکھائی دے گی تب سب لوگ انتہائی خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے ہوں گے۔ اس مشکل وقت میں بھی نبی کریم ﷺ کہ رہے ہوں گے۔ ’’امتی امتی‘‘ یا اللہ میری امت یااللہ میری امت۔‘‘  اپنی بات ختم کر کے میں نے بچوں کو دیکھا۔ وہ گہری سوچ میں گم تھے۔

’’کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ بھی پیارے نبی کریم ﷺ سے سچی محبت کریں گے اور ان کی محبتوں کا حق ادا کریں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تو سب بچوں نے پر جوش ہو کر ہاتھ کھڑے کر دیے۔ مجھے لگا میں ان کے ننھے دلوں میں پیارے نبی کریم ﷺ کی محبت کا پودا لگانے میں کامیاب ہو گیا ہوں!


 

{rsform 7}