اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ سر سلیم اسے ڈانٹ رہے تھے۔
”آخر کب سمجھو گئے تم؟ اب تم کوئی بچے نہیں رہے آٹھویں جماعت میں پڑھ رہے ہو۔ میں تو تنگ آگیا ہوں تم سے۔ پڑھتے نہیں تو اسکول کس لئے آتے ہو؟“
اس کا سرشرم سے جھکا ہوا تھا۔
سر سلیم نے پھر کہا:”چلو جاو یہاں سے۔ اگر آئندہ ٹیسٹ میں تمھارے نمبرکم آئے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ سمجھے؟“
پھر وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
”امجد! میں نے تمھیں کل ہی سمجھایا تھا کہ سبق یاد کرکے آنا، لیکن تم سنتے ہی نہیں۔
ڈانٹ پڑگئی نہ بھری کلاس میں !”خاور کی آواز اس کے دماغ پر ہتھوڑے بر سا رہی تھی۔
اس نے غصے سے سر اُٹھا کر خاور کو دیکھا اور کہا:” یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہر روز ڈانٹ کھانا میرے نصیب میں ہے۔“
” اس میں غلطی تمھاری ہے ۔
کیوں سبق یاد نہیں کرتے؟“
” میں کوشش تو کرتا ہوں لیکن۔۔۔۔؟
خاور نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:” اگر تم کوشش اور محنت کرو تو ضرور کامیاب ہو گے۔“
” میں اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کروں گا۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔
چھٹی کی گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ اُٹھا اپنا بیگ اُٹھایا اور چل پڑا۔ گھر پہنچتے ہی اس نے بیگ سوفے پر رکھا اور پلنگ پر لیٹ گیا۔
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے پوچھا:” کیا بات ہے بیٹا! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟“
”امی ! سر میں درد ہو رہا ہے۔
آرام کرنا چاہتا ہوں۔ “ اس نے آہستہ سے کہا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ سو گیا۔
اسے سوئے ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تویہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے سامنے علامہ اقبال کھڑے تھے ہمارے قومی شاعر!
”ہاں میں !“ علامہ اقبال نے جواب دیا اور کہا:” میں ایک خاص مقصد کے لئے یہاں آیا ہوں۔
مجھے تم سے شکایت ہے۔ “ حکیم الامت کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اس کا سر شرم سے جھکتا چلا گیا۔
”مجھ سے آپ کو شکایت ہے؟“ اس نے سوالیہ نظروں سے علامہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔”ہاں مجھے تم سے شکایت ہے اور میں تمھیں سمجھانے کے لئے یہاں آیا ہوں۔
“
قومی شاعر نے کہا۔
پھر مفکرِ پاکستان نے کہنا شروع کیا:” آج تک تم نے تعلیم کی قدر نہیں کی اور اس بات کا تم کو احساس بھی نہیں کہ تم کس مقصد کے لئے اسکول جاتے ہو۔ تم تو میرے شاہین ہو۔ میں نے تو تم سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن تو اپنی تعلیم پر توجہ نہیں کرتے۔
ہمیشہ نقل کر کے پاس ہوتے ہو۔ تعلیم کی قدر ان سے پوچھو جو سارا سارا دن گاڑیوں کے نیچھے گُھسے رہتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے اوزار ہیں اور جو اسکول جانا چاہتے ہیں مگر نہیں جا سکتے۔ وہ مجبور ہو کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں۔
تم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کتنی مشکل اور محنت کے بعد تمھارے والدین پیسے کماتے ہیں مگر تم نہ صرف ان کے محنت سے کمائے روپے ضائع کر رہے ہو بلکہ اپنا قیمتی وقت مزید ضائع کر کے اندھروں میں گُم ہو رہے ہو۔“
”میں شرمندہ ہوں۔
“ اس نے آہستہ سے کہا۔
” میرے شاہین! تمہیں اپنا مقصد خود بنانا ہے۔ اونچا مقام حاصل کرنے کے لئے تمہیں کوشش اور محنت کرنی چاہیے۔“
”میں اب محنت اور کوشش کروں گا۔ آپ نے میرے دل میں علم کی شمع روشن کی ہے میں اسے بجھنے نہیں دوں گا۔
یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔“ اس کی آواز کمرے میں گونجی۔
اچانک وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
” اوہ ! تو یہ سب خواب تھا۔“ اس نے خود سے کہا۔
پھر اس نے نظر اُٹھا کر سامنے دیوار پر لگی ہوئی علامہ اقبال کی تصویر کو دیکھا اور ایک عزم سے کہا:” اے عظیم شاعر! آج سے میں اپنی پوری توجہ علم حاصل کرنے پر دوں گا اور ااونچا مقام حاصل کرنے کے لئے دن رات محنت کروں گا۔ آپ کو ہرگز مایوس نہ کروں گا بلکہ اقبال کا حقیقی شاہین بن کر دکھاوٴں گا۔“