یار اورنگزیب ایک بات پوچھوں سچ سچ بتا گے۔ مشتاق نے اپنے بے تکلف دوست سے پوچھا۔

اورنگزیب نے حیرت سے مشتاق کو دیکھا اوربولا۔
اب مجھ سے اجازت لیا کرو گے بات پوچھنے کی بھی۔
یار وہ بات ہی ایسی ہے مجھے ڈر ہے کہیں تم ناراض نہ ہوجا۔ مشتاق نے جھجک کر کہا۔ اللہ کے بندے اب کہہ بھی ڈالو۔ اورنگزیب جھلا گیا۔
کل بھی میں نے تمہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر تم رو رو کر دعا بھی مانگ رہے تھے میں حیران ہوں کہ تم نے کب سے نماز شروع کردی اور پھر یہ رو رو کر نماز پڑھنا میری سمجھ میں نہیں آیا، دعا تو ہر نمازی مانگتا ہے مگر میں نے کسی کو روتے ہوئے دعا مانگتے نہیں دیکھا۔ مشتاق کہتا چلا گیا۔
اورنگزیب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اس نے پیار بھری نظروں سے مشتاق کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا۔ میں نے چند دن قبل سے باقاعدہ نماز پڑھنی شروع کردی تھی، ایک دن اتفاق سے میرے سر میں درد تھا اور میں لیٹا ہوا تھا بس سوچتے سوچتے میں اپنی سابقہ زندگی کا سدباب کر بیٹھا تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں نے تو آخرت کے لیے کچھ بھی نہیں کمایا سوائے گناہوں کے، مجھے یہ احساس ہوا کہ ہر آدمی صبح اٹھ کر کسی نہ کسی صورت میں روزگار کے لیے نکلتا ہے اسی طرح ہم بھی دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں، بس یہ وہی لمحہ تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق گزاروں گا۔ اورنگزیب چپ ہوگیا مشتاق بہت متاثر نظر آرہا تھا۔

 

اورنگزیب پھر بولنے لگا۔ مشتاق یار، بس کیا بتاں میں نے جہنم کا تصور کیا اللہ کے عذاب کے بارے میں سوچا تو مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی اب میں جب بھی نماز ادا کرتا ہوں اللہ کے خوف سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ اورنگزیب کا لہجہ کہتے کہتے بھر گیا تھا۔
چند لمحے خاموشی میں بیت گئے پھر مشتاق بولا۔ کیا اللہ ہمارا اس طرح رونا پسند کریں گے۔
اورنگزیب جذباتی لہجے میں بولا۔ اللہ کو دو قطرے بہت پسند ہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اس کے خوف سے نکلے اور دوسرے خون کا وہ قطرہ جو جہاد میں کسی زخم سے ٹپکے۔
چند لمحے توقف کے بعد وہ مزید بولا، جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ پاس سے گزرتے سر حیدر نے اورنگزیب کی گفتگو کا آخری جملہ سنا تو وہ رک گئے۔ انہیں بہت خوشی ہوئی کہ اسکول کے ہاف ٹائم میں جب سارے بچے کھیل رہے تھے یا دیگر تفریحات میں مصروف ہیں دو ذہین اور اچھے طالب علم دین کی باتوں میں مصروف ہیں وہ بھی ان دونوں کے نزدیک گھاس پر بیٹھ گئے۔ ان دونوں کو سر حیدر کی آمد سے خوشی ہوئی، مشتاق نے قدرے اختصار کے ساتھ ساری بات سنائی۔ سر حیدر نے کہا۔ اگر میں کچھ کہوں تو آپ لوگوں کو یہ مداخلت بری تو نہیں لگے گی۔ نہیں سر، دونوں کہہ اٹھے۔
سر حیدر بولے، تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک انصاری پر خدا کا خوف اس قدر غالب ہوگیا تھا کہ ہر وقت رویا کرتے تھے۔ جب وہ آگ کا ذکر سنتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے دل میں ڈر اتنا بیٹھ گیا تھا کہ وہ گھر میں پڑے رہتے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر سنا تو ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جا کر ان کو گلے لگالیا۔ انصاری پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ گر پڑے اور روح پرواز کرگئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو خدا کے خوف نے اس کا دل پاش پاش کردیا۔ سر حیدر کی بات ختم ہوئی اور ادھر ہاف ٹائم کے ختم ہونے کی بیل بجی۔ شام کو اورنگزیب مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ اس نے سسکیوں کی آواز سنی، سلام پھیر کر دیکھا تو مشتاق روتے ہوئے اپنی سابقہ غلطیوں اور گناہوں پر اللہ کے حضور رو رو کر معافیاں طلب کررہا تھا۔ بے اختیار اورنگزیب کی بھی آنکھیں بھرا گئیں اور آنسو گرنے لگے۔ کتنے مبارک اور مقدس آنسو ہوتے ہیں جو اللہ کے لیے گریں، اللہ کے خوف سے آنکھوں سے نکلیں۔