(جناب مصطفی صادق کا وہ تاریخی مضمون جس پر انہیں تحریک پاکستان کے ایک مجاہد کی حیثیت سے گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرایا گیا)
(حصہ اول)
پاؤں سے خون رس رہا تھا، سر میں باریک باریک پھنسیاں، ذرا سا کھجلاؤں تو انگلیاں خون سے بھر جاتیں، کپڑے میلے کچیلے بلکہ گدلے، اس لئے کہ کم و بیش چھ ہفتے اس عالم میں گزر گئے
تھے کہ یا تو بارش کی فراوانی کے باعث کیچڑ میں لت پت فرش نشینی میں شب و روز بسر ہو رہے تھے اور یا پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے تھے۔
غلامی کا دور تو پہلے بھی دیکھا تھا لیکن 14 اگست 47ء سے غلامی کی جن زنجیروں نے ہمیں جکڑ لیا تھا ان کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں تھا، اس لئے کہ ہمیں تو ضلع گوردا سپور کے ساتھ ہی ضلع ہوشیار پور کے کچھ علاقوں کی آزادی کی نوید سنائی گئی تھی اور ہم انتہائی مشکل مراحل سے گزرتے ہوئے 14 اگست کو طلوع ہونے والی اس صبح کے انتظار میں تھے جو ہمارے لئے آزادی کا پیغام لے کر آنے والی تھی، لیکن یہ تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ فسادات تو 14 اگست سے پہلے ہی شروع ہو چکے تھے لیکن اس وقت تک مقابلہ ایک ایسی جنونی قوم کے انتہا پسند افراد سے تھا جس کے خبث باطن اور فتورنیت سے ہم بخوبی واقف تھے۔ ان کے اسی کردار کے باعث تو قائداعظمؒ نے پوری قوم کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں انتہائی سرعت کے ساتھ غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی اور ہم ایسے کارکنوں نے گلی گلی، بستی بستی، قریہ قریہ اور شہر شہر، گھوم پھر کر قائداعظمؒ کا یہی پیغام کلمہ گو مسلمانوں تک پہنچایا تھا کہ ہمیں انگریز کی غلامی سے آزاد ہو کر ایک علیحدہ وطن پاکستان کے حسین و جمیل دلکش دلربا نام سے۔۔۔ بسانا ہے، آباد کرنا ہے، جس میں ہمیں اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کیلئے مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ ہم ایک طرف انگریز کی غلامی کا قلادہ گردنوں سے اتار پھینکیں گے اور دوسری طرف ہندو کے غلبہ سے آزاد ہو جائیں گے۔
لیکن یہ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا ہم تو کسی بہت بڑے فریب کا شکار ہو گئے، ہمارے ساتھ کون دھوکہ کر گیا، کہاں آزادی کا خواب دیکھا جا رہا تھا، کہاں غلامی کے ایسے شکنجے میں جکڑے گئے۔۔۔ اور غلامی بھی ہندو ایسی پست ذہنیت رکھنے والی قوم کی اور ہندو بھی وہ جس کے مقابلے میں ہم اپنی آزادی کیلئے نبرد آزما تھے، برسر پیکار تھے، اب تو اس کی آتش انتقام بھی بھڑک اٹھی۔ اس چال باز قوم نے سادہ لوح سکھوں کو گمراہ کیا۔ خود تو سامنے آنے کی ہمت نہ تھی، پٹیالہ کی سکھ فوجوں کو ہماری بستیوں پر اس حال میں حملہ آور ہونے کیلئے آمادہ کیا کہ ہم جتنا بھی مقابلہ کرتے، ہمیں اپنے گھروں سے بے گھر ہونا ہی تھا۔ لیکن یہی تو نہیں، یہاں تو اور بھی بہت کچھ ہوا۔ آج میں اپنے بزرگ بابا محمد جمیل کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایسے کمرے میں تڑپتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جس کو باہر سے مقفل کر کے نذر آتش کر دیا گیا تھا جس میں کم و بیش تیس دوسرے افراد بھی تھے، جن میں بچے بھی شامل تھے اور عورتیں بھی۔ ظالموں نے خدا جانے توہین انسانیت کے لئے اس گھٹیا پن کا مظاہرہ، اس چھچھورے پن کا مظاہرہ، اس کمینہ پن اور سفلہ پن کا مظاہرہ کس لئے کیا۔ میرے سامنے میرے ایک اور بزرگ بابا نور محمد جنہیں ہم سب لالہ جی کہتے ہیں، سفید و براق لباس میں ملبوس، اس حال میں اپنی حویلی کے سامنے لیٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ان کا وہ سر تن سے جدا ہے جسے میں اکثر سجدے کی حالت میں دیکھتا تھا۔ ان کا لباس ہی سفید و براق نہیں تھا بلکہ ان کی چمکدار سفید داڑھی بھی ان کے خوشنما چہرے کی زینت تھی۔ ان کی پیشانی پر سجدے کا نشان رات کی تاریکی میں بھی چمکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ایک اور بزرگ جو رشتے میں میرے چچا تھے۔۔۔ چودھری غلام علی۔۔۔ چار چار چھ چھ افراد۔۔۔ مسلح افراد کے مقابلے میں ایک لاٹھی کے سہارے ڈٹ کر بھڑ جانے والے۔۔۔ اپنے علاقے میں گنگا (پنجاب کے دیہات کا ایک قدیم عسکری کھیل) کے معروف کھلاڑی ہی نہیں جانے پہچانے استاد تھے۔ اس عالم میں یاد آ رہے ہیں کہ ہم سات افراد کم و بیش گولہ باردو سے مسلح 30-35 انتہا پسندوں سے متصادم ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں دیسی ساخت کی تلواریں اور برچھیوں کے لاہو، چھوٹے چھوٹے پٹاخے ہیں اور ہمارے مد مقابل پانچ گنا زیادہ افراد رائفلوں سے مسلح ہیں۔ ایسے عام میں چچا غلام کی آواز ان الفاظ میں گونجتی ہے ’’منڈیو ہتھیں پے جاؤ!!‘‘ (جوانو! دست بدست جنگ شروع کر دو) میرے دائیں طرف میرے ماموں چودھری محمد بوٹا میں اپنے گاؤں کی جنگ کا ہیرو قرار دے سکتا ہوں، دشمن کو للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی اس دیسی ساخت کی تلوار سے ایک حملہ آور کا سر تن سے جدا کر دیا لیکن اس وار میں ان کی تلوار دہری ہو گئی۔ ان کے پاس دوسرا ہتھیار تیز دھار پھل والی برچھی تھی۔ ابھی یہ دوسرے وار کیلئے سنبھل ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک اور حملہ آور انتہائی پھرتی کے ساتھ میری طرف بڑھا۔ بیشتر اس کے کہ وہ مجھے اپنی تلوار یا خنجر کا نشانہ بناتا، میرے ماموں جان نے اس کے سینے میں بھی برچھی پیوست کر دی۔ اتنے میں چودھری غلام محمد کی آواز پھر آئی، اب وہ میرے ماموں کو اپنے مخصوص دیہاتی لب و لہجے میں پکار رہے تھے: ’’بوٹیا تکڑے ہو جاؤ‘‘ (محمد بوٹا سنبھل جاؤ‘ سنبھل جاؤ) چچا غلام علی کی یہ للکار بڑی ہی گرجدار اور جاندار تھی، جس سے ہمارے حوصلے بڑھ رہے تھے اور دشمن کے حوصلے پست ہو رہے تھے چنانچہ میرے بڑے بھائی چودھری قدرت علی نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک غیر تربیت یافتہ سپاہی کی طرح تلوار اوپر اٹھائی اور پیش قدمی کر کے ایک ایسے حملہ آور کے سر پر دے ماری جس کی موٹی موٹی پگڑی کی تہوں میں سے گزرتی ہوئی یہ تلوار اسے اس حد تک زخمی ضرور کر گئی کہ وہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہا۔ ایک حملہ آور کو میں نے بھی چت کیا، ایک اور کو میرے ماموں زاد بھائی اقبال نے زخمی کیا اس وقت ان کے حوصلے اگرچہ پست ہو چکے تھے اور تعداد میں ہم سے پانچ گنا حملہ آور پسپائی پر مجبور ہو چکے تھے لیکن دائیں طرف سے اچانک انہیں ایسی کمک پہنچ گئی جن میں سے ایک حملہ آور نے میرے چچا چودھری غلام علی کے سینے میں دل یک عین قربی اس زور سے خنجر گھونپا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے جسم سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ نئے حملہ آوروں کی زد میں ہمارا ایک اور ساتھ فضل دین، کچھ اس صورت میں آ گیا کہ اس کی ران پر تلوار کا وار ایسے زور سے ہوا کہ گوشت کا بہت بڑا لوتھڑا نیچے کی طرف ڈھلک گیا۔ فضل چلنے کے قابل نہ رہا۔ چودھری غلام علی کو شدید زخمی حالت میں ایک کنویں کے پاس درد سے کراہتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ اس علاقے کے حملہ آور پسپا ہو چکے تھے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق چچا غلام علی اپنے قافلہ کا ساتھ نہ دے سکا، دل کے قریب گہرا زخم بالآخر جاں لیوا ثابت ہوا۔ آہ! کتنا بہادر اور جفاکش و وفاکش تھا میرا یہ محترم چچا! حملہ آوروں سے ہمارا یہ تصادم 18 اگست 47ء کو شام پانچ بجے شروع ہوا تھا جو غروب آفتاب کے بعد تک جاری رہا۔ یہ تصادم بابا محمد جمیل کی حویلی کے باہر شروع ہوا تھا جسے بعد میں نذر آتش کر دیا گیا۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہم گھروں کی طرف بھاگے (واضح رہے کہ ہماری حویلیاں ہمارے گھروں سے کافی فاصلے پر واقع تھیں) گھروں کی طرف جاتے ہوئے جب ہم گلی میں سے گزرے تو وہاں بعض مستورات کو زخمی حالت میں تڑپتے ہوئے پایا۔ جب میں اپنے گھر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ میری والدہ محترمہ ایک خاتون کو بڑی مشکل سے اٹھائے ہوئے اپنے گھر کی طرف لے جا رہی ہیں۔ گھر پہنچتے ہی والدہ نے اس زخمی خاتون کے منہ میں پانی ڈال دیا لیکن پانی کے قطرے حلق سے اترتے ہی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس خاتون نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ میں والدہ سے یہ کہہ کر مکان کی چھت کے اوپر چلا گیا کہ ہمارے گاؤں کو حملہ آوروں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا ہے، ان کے پاس بے پناہ اسلحہ ہے اور وہ اندھا دھند فائرنگ کر کے ہمارے لوگوں کو ہلاک و زخمی کر رہے ہیں۔ میں چھت کے اوپر پہنچا ہی تھا کہ ایک گولی شائیں کرتی میرے روئی دار بنڈی کو دائیں طرف سے چیرتے ہوئے آگے نکل گئی، میں اس سے بال بال بچ گیا۔ میں نے اندازہ کیا کہ حملہ آوروں سے نہ ہماری چھتیں محفوظ ہیں اور نہ گلیاں، بعض بعض گھروں کے اندر بھی حفاظت کا کوئی سامان اور امکان نہیں رہا۔
کم و بیش دو گھنٹے تک قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا ابتدائی تیس چالیس منٹ تک تو کہیں کہیں سے میرے گاؤں کے بہادر اور جیالے نوجوانوں اور بزرگوں نے ان کا مقابلہ کیا، لیکن بعد میں حملہ آوروں کو کھلی چھٹی مل چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی گورکھا فوج کے بعض سپاہی بھی گاؤں میں داخل ہوتے نظر آئے جو بظاہر ہماری حفاظت کیلئے آئے تھے لیکن ایسے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں ہماری حفاظت سے زیادہ اس بات سے دلچسپی تھی کہ ہم بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے گھروں کو خیر باد کہہ دیں حتیٰ کہ اپنے گاؤں سے نکل کر کسی اور گاؤں میں چلے جائیں۔ گھر سے نکلنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ میرے ماموں جان ہمارے گھر میں اس حالت میں داخل ہوئے کہ ان کے چہرے سے لے کر گھٹنوں تک خون ہی خون نظر آ رہا تھا۔ وہ اپنے سینہ سے بندھے ہوئے تکیہ سے روئی نکال کر خون کے دھبے بلکہ لوتھڑے صاف کرتے لیکن اتنے میں مزید خون نکل آتا، ان کا چہرہ ان کی گردن اور ان کے بازو دو نالی بندوق کے چھروں سے بری طرح زخمی ہو چکے تھے حتیٰ کہ بہت سے چھرے ان کے جسم میں پیوست نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے آتے ہی والدہ سے کہا، بہن! چلیں گھر سے نکلیں، یہاں ٹھہرنے کا وقت نہیں رہا، اب یہ گھر ہمارے گھر نہیں ہیں۔ یہ الفاظ کہنے والا کہہ رہا تھا، سننے والے سن رہے تھے لیکن جو کچھ ہمارے ساتھ بیت رہی تھی، وہ تو بیان سے باہر ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ میرے اپنے ہی گھر میں والدہ محترمہ کی اطلاع کے مطابق سیروں کے حساب سے سونے اور چاندی کے زیورات بطور امانت محفوظ تھے اس لئے کہ ایک تو ہمارا یہ گھر سارے گاؤں میں مرکزی مقام پر تھا۔ دوسرے والدہ محترمہ کی امانت و دیانت گاؤں ہی میں نہیں علاقہ بھر میں مسلمہ تھی چنانچہ چند روز قبل ساتھ والے گاؤں کی کچھ خواتین بھی اپنے زیورات والدہ محترمہ کے سپرد کر گئی تھیں۔ والدہ کو فکر تھی تو صرف ان امانتوں کی، لیکن ماموں جان کہہ رہے تھے کہ بس یہاں سے خالی ہاتھ نکلو اس لئے کہ اول تو ہماری جانیں بھی خطرے میں ہیں۔ اگر بچ بچا کر یہاں سے نکل بھی گئے تو یہ سونا چاندی ہمیں کون ساتھ لے جانے دے گا۔ بہرحال گھر کے درودیوار پر آخری نظریں دوڑائیں اور گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے۔ میرے ہاتھ میں صرف ایک برچھی تھی جو صحیح معنوں میں غازی کہلانے کا حق رکھتی تھی کہ اس کی مدد سے میں نے بعض اہم معر کے انجام دئیے تھے۔ اس حملہ میں بھی جس کی زد میں براہ راست میرا اپنا گاؤں تھا اور چار روز قبل اپنے گاؤں سے ملحقہ ایک دوسرے گاؤں۔۔۔ دواکھری کے دفاع میں بھی مجھے اللہ تعالیٰ نے حملہ آوروں کو جہنم واصل کرنے کی توفیق سے نوازا تھا۔
برچھی کا ذکر آیا تو یہ بھی عرض کر دوں کہ میرے اسلحہ میں سے یہی ایک برچھی تھی جو میرے ساتھ جالندھر کے کیمپ تک آئی۔ یہاں مجھے اس برچھی کی بھی جدائی برداشت کرنا پڑی اس لئے کہ فوجی ٹرک میں بیٹھنے سے قبل ہمیں ایسی ہر چیز سے محروم کر دیا گیا تھا۔ میں جس دوسرے اسلحہ سے مسلح ہو کر حملہ آوروں سے دو دو ہاتھ کرتا رہا تھا اس میں ایک تلوار تھی، ایک دیسی پٹاخوں سے بھرا ہوا ڈول جو میرے بائیں کندھے پر لٹکتا تھا۔ دائیں کندھے سے پانچ سیل والی بہت بڑی بیٹری اور اس کے ساتھ ہی، سینے کو روئی دار بنڈی سے ڈھانپنے کے بعد، ترازو کے ایک پلڑے کو زرہ بکتر کے قائم مقام کے طور پر باندھا۔ سر پر ایک فولادی خول بھی تھا جو صرف ہم چند نوجوانوں کو میسر آیا تھا۔ میرا سارے کا سارا اسلحہ میری اہلیہ نے مجھے تیار کرتے وقت اپنے ہاتھوں سے زیب تن کیا تھا۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ میری اہلیہ پر 18 اگست کے اس حملہ میں جو گزری، وہ اپنی جگہ انتہائی کرب انگیز داستان ہے۔ ہوا یوں کہ ٹھیک پانچ بجے شام جب سائرن کی آواز کے ساتھ ہی پٹیالہ کے فوجی علاقے کے دوسرے سکھوں کے ہمراہ گاؤں کے چاروں طرف یکدم نمودار ہوئے تو ہم سمجھ گئے کہ گزشتہ چند روز سے جس خوفناک حملہ کی اطلاعات ہمیں مل رہی تھیں اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ میں اس وقت اپنے ماموں کے گھر کی چھت پر سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے انداز میں دفاعی تیاریوں کے اعلانات کر دئیے۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں میری اہلیہ نے مجھے اسلحہ بند کیا اور خود اپنے والد کے گھر۔۔۔ جو میرے ماموں کا گھر تھا۔۔۔ دفاعی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ حملہ آور چونکہ غیر معمولی تعداد میں تھے اس لئے انہوں نے بیک وقت گاؤں کی گلیوں میں گھروں میں اور باہر کھلے میدان میں فائرنگ شروع کر دی۔ جو ان کی زد میں آتا اس پر فائر کھول دیتے۔ جگہ جگہ ہمارے نوجوانوں کی ٹولیاں بھی ان کے مد مقابل ڈٹ گئیں۔ ادھر ہمارے ماموں کے جس وقت وحشی حملہ آور داخل ہوئے، میری اہلیہ اپنے ننھے منے تایا زاد بھائی کو ہاتھوں میں لئے کھڑی تھی۔ ایک درندہ صفت حملہ آور نے آتے ہی کہا کہ اس بچے کو پھینک دو۔ میری اہلیہ نے انکار کیا تو اس نے برچھی کا وار کر کے بچے کو شدید زخمی کر دیا۔ میری اہلیہ کے دونوں ہاتھ بھی بری طرح زخمی ہو گئے۔ اب وہ بھاگنے لگی۔ اس حملہ آور نے جو گھوڑے پر سوار تھا میری اہلیہ پر ایک اور وار کرنے کی کوشش کی۔ اتنے میں میری اہلیہ کے والد محترم اور میرے بہادر ماموں جان جو ہمارے مورچہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر پہنچ چکے تھے، انہوں نے حملہ آور کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ پر اپنی برچھی سے ایسا وار کیا کہ گھوڑا لڑکھڑانے لگا۔ اس کے بعد گھوڑے اور اس کے سوار پر کیا گزری، اس کا تو ہمیں علم نہیں ہو سکا تاہم میرے ماموں جان تائیدایزدی سے اپنی بیٹی کو اس وحشی انسان کی دست برد سے بچانے میں کامیاب ہو گئے لیکن کون نہیں جانتا کہ ہماری بہت سی بیٹیاں اور مائیں قتل کر دی گئیں، اغوا کر لی گئیں، زخمی حالت میں ویرانوں اور بیابانوں میں پھینک دی گئیں۔ (جاری ہے)
{rsform 7}