Basta

بلّو اسکول سے نکلا، تو سخت گرمی تھی۔ سورج لگتا تھا جیسے عین سڑک کے اوپر اتر آیا ہے۔گرمی کی چھٹیاں ہونے میں ابھی کچھ دن باقی تھے… اوپر سے گھر جانے والی سڑک بھی سیدھی اور سپاٹ تھی۔ پورے راستے میں کوئی درخت نہ سایہ! بلو اسی طرف جانے والی لڑکوں کی ایک ٹولی کے ساتھ گھر جایا کرتا تھا۔ آج بھی انہی کے ساتھ تھا۔ کئی بار اس نے اپنی امی سے سائیکل کی فرمائش کی تھی۔ مگر سڑک پر ٹریفک کا جو برا حال تھا، اسے دیکھتے ہوئے تیسری جماعت کے بچے کو کون سائیکل پر اسکول جانے دیتا؟

ہر بار جواب ملتا کہ پانچویں جماعت میں پہنچو گے، تو سائیکل ملے گی۔ ویسے بلو کو سائیکل چلانی اچھی طرح آتی تھی۔ بازار میں اس کے سائز کی دو پہیوں والی سائیکلیں بھی موجود تھیں۔ مگر اس کی سنتا کون، ہر بار یہی جواب ملتا کہ پانچویں سے پہلے سائیکل نہیں ملے گی۔

آج بھی بلو دوسرے بچوں کے ساتھ پیدل مارچ کرتا لمبی تپتی ہوئی سڑک پر چلا جا رہا تھا… اوپر سے کمبخت بستہ… کتنا بھاری تھا۔ ایک تو بیگ کا اپنا وزن، اوپر سے بیس پچیس کتابیں اور کاپیاں۔ مگر اس بچارے کی مصیبت کون سمجھتا؟ کبھی کچھ کہتا، تو جواب ملتا کہ وہ کوئی اکیلا تو نہیں، سارے بچے اپنا بستہ خود اٹھا کر لاتے ہیں۔ اوپر سے پڑھائی کا شوق نہ ہونے کا الزام لگ جاتا۔ امی ماتھے پر ہاتھ مار کر کہتیں کہ پتا نہیں وہ کون خوش قسمت لوگ ہیں جن کے بچے خوشی خوشی اسکول جاتے اور فرسٹ بھی آتے ہیں… بے چارے بچے، کوئی ان کی مصیبت نہیں سمجھتا۔ امی کی بچی کو خود یہ بستہ اٹھا کر گھر لانا پڑے، تو پتا چلے! ہر وقت یہی کہتی رہتی ہیں، اگلے سال ابو کی ترقی ہو گی، تو گاڑی مل جائے گی۔ بس یہی کہتی رہتی ہیں۔

کئی دفعہ سڑک پر چلتے ہوئے جب بلو نالے کے پل پر پہنچتا، تو بستہ کو اپنے پسندیدہ بڑے سے پتھر پررکھ کچھ دیر رک جاتا۔ یہ پتھر اوپر سے کچھ چپٹا تھا۔ بستے کے ساتھ اس کو بیٹھنے کی جگہ بھی مل جاتی۔ وہ نیچے نالے میں نہاتے ننگ دھڑنگ بچوںکو دیکھتا۔ ان میں سے کئی تو بالکل ننگے ہوتے۔ کچھ جو ذرا بڑے تھے، انھوں نے میلا سا چیتھڑا باندھ رکھا ہوتا۔ یا ملگجی سی چڈی پہنی ہوتی۔ کبھی کبھی تو بلو کا دل بھی مچل اٹھتا کہ یونیفارم سمیت ٹھنڈے ٹھار پانی میں چھلانگ لگا دے۔ کبھی نالے کے ساتھ اگی گھاس میں پھدکتے مینڈک اس کی توجہ کھینچ لیتے۔ مگر اتنے میں آگے نکل جانے والے لڑکوں کی ٹولی میں سے کوئی اسے پکارتا۔ وہ بستہ اٹھا کر بھاگتا ہوا پھر ان میں جا شامل ہوتا۔

گھر پہنچ کر بلو بستے سے چھٹکاراپاتے ہی ماں کی ممتا کاشکار ہو جاتا۔ ماں یونیفارم اور جوتے اتروانے کے درپے ہو جاتی۔ اتنی گرمی اور اسکول میں الم غلم کھانے کے بعد بھوک کیا خاک لگے گی۔ مگر زبردستی منہ میں نوالے ٹھونستی۔ نہ کھانے پر ڈانٹ پڑتی۔ ضد کہ پلیٹ ختم کرو۔  کھانے کے بعد بلو کی جائز خواہش ہوتی کہ باہر جھومتے ہوئے درختوں کے نیچے جا کر کھیلے۔ مگر امی کو نجانے کیوں ضد تھی کہ اب اسے کچھ دیر سونا چاہیے۔ ’’فریش‘‘ کیسے ہو گے، ہوم ورک کیسے کرو گے؟ ’’سمجھتی ہی نہیں تھیں کہ جب درختوں کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہوں، رسی کی پینگ پڑی ہوئی ہو، کچی کچی گھاس کی خوشبو ہو، نور خاں اور کھاتوں کے ہنسنے کی آوازیں ہوں، تو دل سونے کو کیسے چاہے گا؟‘‘

اسے کھڑکی میں سے دور کسی ٹہنی پر نور خاں بندر کی طرح جھولتا دکھائی دیتا۔ وہ جانے کی ضد کرتا، تو امی تھپڑ لہراتی۔ ’’بند کرو آنکھیں… فوراً بند کرو۔ پھر مولوی صاحب آئیں گے، تو تمھیں نیند آنے لگے گی۔‘‘
وہ انھوں سے بھی چڑتا تھا۔ شروع شروع میں جب مولوی صاحب نے آنا شروع کیا، تو ادھر وہ سامنے والے دروازے سے داخل ہوتے، ادھر پچھلے دروازے سے بلو ہوا ہو جاتا۔ مگرآخر کب تک، ڈھونڈ ڈھانڈ کر زبردستی لایا جاتا۔ بچارازہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ یہی تو اس کے کھیلنے کا وقت ہوتا تھا۔ مگر اِدھر چار بجتے، اُدھر مولوی صاحب نازل۔وہ روح افزا کا گلاس پینے اور بلو کو سبق دینے کے بعد اونگھنے لگتے۔

خدا خدا کر کے مولوی صاحب گھر سے نکلتے اور امی بستہ اٹھائے چلی آتیں… اور نہایت میٹھے لہجے میں کہتی ’’لو بیٹا۔ ہوم ورک کر لو۔‘‘ ’’اووں، ابھی نہیں، ابھی میں باہر جا کر کھیلوں گا۔‘‘ ’’کھیلو گے توہوم ورک کس وقت کرو گے؟‘‘ ان کا لہجہ بدلنے لگتا۔ ’’رات کو کر لوں گا۔‘‘ ’’رات کو تم ٹی وی دیکھنے لگتے ہو۔ پھر تمھیں نیند آنے لگتی ہے۔ آخر پڑھائی کب ہوگی؟‘‘ ’’بس ابھی نہیں، میں جا رہا ہوں نور خاں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے۔‘‘ ’’خبردار جو نام بھی لیا اس کا! وہ تو آوارہ بچہ ہے۔ بڑے ہو کر باپ کی طرح مالی بنے گا۔ میرا بیٹا، تو اسکول جاتا ہے۔ انجینئر بنے گا، ڈاکٹر بنے گا… چلو شاباش۔‘‘وہ بلو کوکھینچتے ہوئے پڑھائی کے میز کی طرف لے جاتیں۔ پھرہوم ورک کی ڈائری کھولتیں: ریاضی دس سوال، انگریزی ایک پوری ایکسرسائز، اردو دس حملے بنائیے… بلومنہ بسورتے ہوئے کاپیاں اور پنسل باکس نکالتا ہے… ایک سوال… دوسرا سوال… تیسرا سوال… ’’شش…شش…‘‘ کھڑکی کے باہر سے آوازآتی۔ لال کپڑے کی جھلک سی دکھائی دیتی۔ پھر خاکستری لباس میں پھدکتا سا ہیولا نظر آتا۔

بلو اچک کر جھانکتا، کھڑکی کے نیچے کھاتوں (نور خاں کی بہن جس کا نام خاتون ہو گا) کھڑی ہے۔ اس کے ہاتھ میں کیا ہے… املی کی پڑیا، اوپر لال مرچیں… اف، بلو کے منہ میں پانی آ جاتا۔ نورخان جیب سے کانچ کے بنٹے نکال کر دکھاتا۔ باہر درخت اور پودے ہولے ہولے ہوا میں جھول رہے ہیں۔ ’’باہر آ جا… باہر آ جا‘‘ کھاتوں کہتی ۔’’ ابا گائوں سے بیر لایا ہے، یہ دیکھ۔‘‘ اس کی ہتھیلی پر بیر ہیں، سرخ نارنجی، کھٹے میٹھے۔ املی اور بیر کی کشش سے کھینچتا ہوا، بلو دروازے کی طرف بڑھتا۔ مگر ماں کی عقابی نظروں سے بچ نہیں سکتا۔ ’’بلو آئو واپس، فوراً۔‘‘ ’’ابھی آتا ہوں۔‘‘ ’’واپس آئو فوراً، ہوم ورک دکھائو لا کر۔‘‘ ’’آتا ہوں نا۔‘‘ وہ بدستور دروازے کی طرف بڑھتا۔ ماں کو کھڑکی کے باہر کھاتوں کا سر نظر آتا۔

’’بھاگ جا بدذات۔‘‘ وہ دہاڑتیں۔ کھاتوں بساط بھر رفتار سے بھاگ جاتی۔ ’’دکھائو کتنا کام کیا ہے۔‘‘ کاپی اٹھا کر دیکھتی ہیں۔‘‘ آدھ گھنٹے سے لگے ہوئے ہو، صرف تین سوال کیے ہیں۔ ایک تو میں ان آوارہ بچوں سے تنگ ہوں۔ پڑھائی میں دھیان ہی نہیں ہوتا تمھارا، ان کی وجہ سے۔ کتنی دفعہ کہا ہے کوارٹر خالی کروا لیں۔ بچہ برباد ہو رہا ہے۔ خود دفتر سے آ کر سو جاتے ہیں۔ دماغ میرا خراب ہوتا ہے۔ بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے اس بچے کی وجہ سے… کام ختم کرو فوراً، خبردار جو اب سر اٹھایا… ریاضی کا پرچہ بھی ہے کل…‘‘ بکتی جھکتی چلی جاتی ہیں۔

بلو کے دل میں غصے کا ناگ پھن اٹھاتا۔ وہ غضب بھری نظروں سے بستے کو دیکھتا۔ بے دلی سے کتابیں میزپر ڈالتا۔ ہر وقت پڑھتے رہو، پڑھتے رہو،ہر وقت… صبح اتنی مزیدار نیند آ رہی ہوتی ہے۔ اٹھا دیتی ہیں آ کر۔ تیار ہو، اسکول جائو۔ صبح تو پاپا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر بستہ اٹھا کر لائو… ایک دن بھی چھٹی نہیں کرنے دیتیں۔ نور خاں اور کھاتوں کتنے مزے سے کھیلتے رہتے ہیں، نہ اسکول نہ ہوم ورک نہ بستہ نہ کچھ… نور خاں جب دیکھو درخت پر بیٹھا رہتا ہے… کتنے کھیل آتے ہیں اسے… پٹھوگول گرم، بارہ ٹہنی…

جب بارش آئے، مجھے امی اندر بند کر دیتی ہیں۔ نور خاں کتنی دوڑیں لگاتا ہے بارش میں۔ وہ اور کھاتوں کتنا نہاتے ہیں، کشتیاں چلاتے ہیں… کالیاں اٹاں کالے روڑ۔ مینہ وسا دے زوروں زور… چیچو چیچ گنڈیریاں۔ نور خاں اتنی بڑی کالی سائیکل قینچی مار کر چلاتا ہے۔ وہ کھڑکی سے نور خان کو دوسرے بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھتا۔ کبھی کبھی وہ اسے کھڑکی سے اپنی جیب سے کچھ نکال کر دکھاتا۔ ’’دیکھ اوئے ڈڈو۔‘‘ نالے سے پکڑ کر لایا ہوتا۔

ایک دن اس نے کتاب سے نور خاں کو سکھانے کی کوشش کی تھی: ایف۔فروگ (Frog)۔ نورخاں نے کہا تھا ’’اے کوئی فراگ آ، اے تے ڈڈو آ…‘‘ بس کل کچھ بھی ہو جائے، اسکول نہیں جائوں گا۔ ریاضی کے پرچہ کی تیاری بھی نہیں۔ میڈم چھوڑیں گی نہیں۔ امی نہ سر درد کا سنتی ہیں نہ پیٹ درد کا۔ ایک دفعہ گرم پانی میں تھرمامیٹر ڈال کر بخار کی چھٹی ملی تھی… دوسری دفعہ پارہ ۱۰۸پر چلا گیا اور پکڑے گئے… بس کل کچھ بھی ہو جائے، چھٹی کروں گا… کاش یہ بستہ ہی کہیں غائب ہو جائے!

شام کو جب سب لوگ کسی نہ کسی کام میں مصروف تھے، بلو غور سے ادھر ادھر دیکھ کر موقع تاکتا رہا۔ ابو سیر کرنے نکل گئے۔ امی باورچی خانے میں کچھ بنانے کے لیے چلی گئیں۔ برتنوں کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن بلوکی ہمت نہیں ہوئی۔ پھر جیسے ہی مسالہ بھوننے کی تیز خوشبو اور پتیلی میں بڑا چمچ چلنے کی آواز آئی، بلو سمجھ گیا کہ یہی وقت ہے۔ اس نے چپکے سے بستہ اٹھایا، بغیر آواز پیدا کیے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ گھر کے ساتھ خالی پلاٹ تھا۔ لوگوں نے اسے کوڑا خانہ بنا دیا۔

شام کے دھندلکے بلکہ اندھیرے میں دکھائی بھی کم دیتا ہے۔ اونچے نیچے پتھروں پر پیڑ ٹیڑھے میڑھے پڑ رہے تھے۔ پھر یہ ڈر رہا کہ کوئی دیکھ نہ لے… آخر ایک چھوٹا سا گڑھا نظر آ گیا جو بستے کی قبر بنانے کے لیے بالکل ٹھیک تھا۔ بلو نے بستے کو گڑھے میں ڈالا، اوپر سے کچھ پتھر اور پتے وغیرہ ڈال دیے اور ہاتھ میں جھاڑتا یوں کھڑا ہو گیا جیسے کسی زہریلے دشمن کو دفن کر کے اٹھا ہو۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے پہلے اس نے کھڑکی سے اندرجھانکا کہ کوئی اسے اندر آتا دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر چپکے سے اندر داخل ہو گیا۔ اسے جاتے یا آتے ہوئے کسی نہ دیکھا۔ وہ خود کو کسی جاسوسی کہانی کا کردار محسوس کر رہا تھا۔ اسے ہنسی آ رہی تھی۔ کتنا مزا آئے گا صبح جب بستہ نہیں ہو گا! کیسے بھیجیں گے اسکول؟ کل کچھ بھی ہو، اسکول نہیں جائوں گا۔ اس کادل غبارے کی طرح ہلکا ہو گیا۔

اس نے پرچہ کی تیاری کرنے کے بجائے عمرو عیار والی کہانی کی کتاب نکالی اور مزے لے لے کر پڑھتا رہا۔ کئی جگہ اسے ہنسی آتی۔ آخر امیر حمزہ اور دیوپاسنگ آہن کی لڑائی کے دوران کہیں وہ میٹھی نیند سو گیا۔ صبح ہوئی تو ماں نے روزانہ کی طرح یونیفارم اور جوتے بلو کے بستر کے پاس رکھے۔ پھر لنچ باکس بستے میں رکھنے کے لیے ادھر ادھر نظردوڑائی۔ ’’بستہ کہاں پڑا ہے بیٹا؟‘‘ انھوں نے بلو کو جگایا۔ ’’یہیں رکھا تھا میز پر۔‘‘ بلو نے نیند بھری آواز میں کہا۔ حالانکہ آج وہ خلاف معمول صبح ہی بیدار ہو گیا تھا۔ ’’اچھا اب اٹھنے کا وقت ہو گیا ہے۔ اٹھو تیار ہو جائو۔ میں بستہ لاتی ہوں۔‘‘ ماں نے کمرے میں بستہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ بلوکن انکھیوں سے ماں کو میزوں کے نیچے، الماریوں کے اندر، پردوں کے پیچھے بستہ تلاش کرتے دیکھتا رہا۔

’’بستہ کہاں گیا بلو کا؟‘‘ ’’کہاں گیا بستہ!‘‘ ’’آخر گیا کہاں؟‘‘ دوسرے کمروں سے آواز آتی رہی۔ ’’تم نے تو نہیں دیکھا؟‘‘ ’’ارے وہ کمبخت نور خان وغیرہ تو نہیں اٹھا کر لے گئے۔ جائو ان کے کوارٹر میں جاکر دیکھو۔‘‘ مگر یہ بستہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔ بلو کی نظر گھڑی پر تھی۔ بس کسی طرح اسکول کا وقت گزر جائے، آٹھ بج جائیں کسی طرح، تو سب ٹھیک ہے۔ ابو ناشتے کے لیے آئے، تومعاملہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ ’’بستہ کہاں جائے گا، اسی نے چھپا دیا ہو گا کہیں۔‘‘ انھوں نے نہایت اطمینان سے کہا۔ اس طرف توکسی کا دھیان ہی نہیں گیا تھا… امی چیل کی طرح بلو پر جھپٹیں: ’’نکالو جلدی بستہ۔‘‘ ’’میں نے تھوڑی چھپایا ہے۔‘‘

’’میں کہتی ہوں نکالو فوراً‘‘ ’’میں نے نہیں چھپایا۔‘‘ ’’نکالتے ہو یا تھپڑماروں، وقت ہو رہا ہے اسکول کا، جلدی کرو۔‘‘ ’’مجھے نہیں پتا۔‘‘ بلو نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ مگر جرم اس کے چہرے اور آنکھوں پر صاف لکھا ہوا تھا۔ کہاں آٹھ سالہ بچہ، کہاں زمانہ ساز خرانٹ نگاہیں! ماں نے ایک زور کا تھپڑ گال پر لگایا۔ ’’کہاں ہے بستہ؟‘‘ بلو رونے لگا۔ ’’نکالتے ہو یا لگائوں چمٹا گرم کر کے‘‘ ماں نے چمٹا لہرایا۔ آخر بلو کی مدافعت جواب دے ہی گئی۔ وہ ماں کو لیے خالی پلاٹ کی طرف چل پڑا۔ گڑھے کے پاس پہنچا اور آہستہ آہستہ پتے اور پتھر ہٹا کر اس طرح بستہ نکالنے لگا جیسے مرا ہوا سانپ نکال رہا ہو۔

(بشکریہ اردو ڈائجسٹ)