میں کمبخت اس بار بھی بھول گیا تھا۔ وہ تو منے نے مجھے یاد دلایا تھا۔ اس رات میں بہت دیر سے دکان سے گھر لوٹا تھا۔ اس وقت بیگم سمیت بچے بھی سوچکے تھے۔ انہیں اٹھانے پر وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھیں اور گھڑی دیکھتے ہوئے حیرانی سے بولیں۔’’ ارے آج پھر اتنی دیر کردی آپ نے۔‘‘
’’بھئی سارا دن کام نہیں تھا۔ کام ہی لیٹ آیا تو دیر تو ہونی ہی تھی۔ خیر تم کھانا دو۔‘‘
ہماری آوازیں بہت آہستہ تھیں، مگر محمد علی شاید سویا نہیں تھا اسی لیے میری آواز سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
’’بابا آپ میرا پاکستان لائے۔‘‘ اس نے مجھے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
’’اوہو بیٹا، میں بھول گیا، کل ضرور لادوں گا۔‘‘ میں نے بناوٹی انداز میں اپنا سر پکڑتے ہوئے افسوس سے کہا۔
’’آپ کل بھی بھول گئے تھے اور آج بھی، سب کے گھر میں پاکستان آگیا ہے۔ ہشام نے اپنے گھر پر لگا بھی لیا ہے اور آپ مجھے لا کر نہیں دے رہے ہیں۔‘‘ منے نے روہانسی شکل بناتے ہوئے کہا۔
’’بھئی کل تو ضرور لادوں گا، وعدہ۔‘‘ میں نے اپنے معصوم بچے کی ناراضی، اس کے بھولے پن سے بھانپ گیا تھا۔ میں نے وعدہ کرتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔
’’آپ اگر کل نہیں لائے تو میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ اس نے خفا ہونے کے سے انداز میں کہا اور کروٹ بدلتے ہی سوگیا۔
دوسری صبح منے نے اسکول جانے سے پہلے مجھے دو دو روپے کے دو سکے دیے اور بولا۔
’’بابا آپ یہ پیسے رکھ لیں، مجھے جھالر ضرور لاکر دیجئے گا۔ وہ میرے پاکستان پر بہت اچھی لگے گی اور میں تایا ابو سے بڑی سی لکڑی لے آیا ہوں۔ وہ میں اپنے پاکستان میں لگادوں گا۔ ‘‘
پاکستانی جھنڈے سے منے کی محبت دیکھتے ہوئے میرا دل بڑا ہوگیا تھا۔ میں نے پیار سے اس کے سکے اسے واپس کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم یہ پیسے رکھ لو، میں جھالر ضرور لے آﺅں گا۔‘‘
’’بابا آپ بھولنا نہیں۔‘‘ منے نے مجھے دوبارہ تنبیہ کی اور اسکول چلاگیا۔
آج بھی سارا دن دکان پر مکھیاں مارتے ہوئے گزر گیا۔ صبح سے دوپہر اور شام سے آٹھ بجے تک کوئی کام نہ آیا، پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ عشاءسے ذرا پہلے ایک گاڑی بننے کے لیے آگئی۔ اس کام میں رات کے بارہ بج گئے، رات بارہ بجے جب میں تھکا ہارا گھر واپس پہنچا تو بھوک سے بے حال تھا۔ بیگم نے فوراً کھانا لا کر دیا۔ ابھی میں پہلا نوالہ کھانے ہی والا تھا کہ بیگم نے پوچھا۔’’ جی وہ منے کے لیے جھنڈا لے آئے۔‘‘
’’بیگم، میں پھر بھول گیا۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔’’ دیکھو خیال رکھنا، کہیں منا ابھی اٹھ نہ جائے۔‘‘
’’ ابھی چوک میں دکانیں کھلی ہوں گی۔ آپ ابھی جھنڈا لے آئیں۔ میں نے ابھی تو اسے بہلا پھسلا کر سلادیا ہے۔‘‘
بیگم کا کہنا درست تھا۔ میں تھکاوٹ سے چور اور بے حال تھا، مگر منے کی خواہش کو بھی تو میں نے پورا کرنا تھا۔ اسی لیے میں نے جلدی سے کھانا کھایا اور فوراً ہی چوک پر چلا آیا۔ پھر ایک بڑا سا پاکستانی جھنڈا اور دو بیج لے کر فوراً ہی گھر واپس چلا آیا اور آتے ہی مطمئن ہو کر سو گیا۔
دوسری صبح محمد علی نے پھر سے جھنڈے کا تقاضا کیا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے جھنڈا دیا۔ جھنڈا پا کر وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ میں نے ایک بیج اس کے اسکول یونیفارم پر لگادیا، پھر اس نے جھنڈا سنبھال کر کہیں چھپا کر رکھ دیا اور خوشی خوشی اسکول چلاگیا۔
دوسری صبح جمعے کا روز تھا، آج دکان پر جانے کی بالکل ہمت ہی نہیں تھی، اس لیے میں صبح ذرا دیر سے اٹھا اور ناشتے کے بعد گھریلو خریداری کے لیے بازار چلاگیا۔ عام دنوں میں منا اسکول سے ایک بجے تک آجاتا ہے، مگر جمعے کے روز وہ گیارہ بجے ہی اسکول سے آگیا۔ پھر میرے سامنے ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھلونوں اور جھنڈے سے کھیلنے لگا۔ اس کی ماں نے جھنڈے میں ایک لکڑی لگادی تھی، اس لیے وہ اسے بار بار لہرا رہا تھا۔اس کا چھوٹا بھائی فہد اس سے جھنڈا چھیننا چاہ رہا تھا مگر محمد علی کسی طرح بھی اسے اپنا جھنڈا نہیں دے رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد بھابھی نے آواز دے کر مجھے بتایا کہ آپ کا فون آیا ہے۔ فون سننے کے لیے میں فوراً ہی نیچے چلاگیا۔ فون سننے کے بعد میں ابھی والدہ محترمہ سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ اچانک ہی محمد علی کے دوست اوپر سے اپنے اپنے کھلونے اور جھنڈے لیتے ہوئے نیچے کی طرف آنے لگے۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے پوچھا۔
’’ارے بھئی کیا ہوا۔‘‘
’’وہ محمد علی رو رہا ہے۔ اس نے اپنے سارے کھلونے پھینک کر ہمیں بھگادیا ہے۔‘‘ ہشام نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں فوراً اوپر کی طرف دوڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارے کمرے اور برآمدے میں کھلونے بکھرے پڑے ہیں۔ قریب ہی فہد منہ پھاڑے بھاں بھاں کرکے رو رہا تھا۔ جب کہ محمد علی صوفے کے اوپر اوندھا پڑا بے تحاشہ رو رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کی والدہ بھی افسردہ منہ بنائے اپنے بیٹے کو بہلانے کی کوشش کررہی تھیں۔ مگر علی کو جیسے صبر ہی نہیں آرہا تھا، میں نے جاتے ہی بیگم سے پوچھا۔ خیریت تو ہے کیا ہوا۔
’’وہ فہد نے محمد علی کا جھنڈا پھاڑدیا ہے۔‘‘
’’اوہ میرے بچے، اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ ہم آپ کو دوسرا جھنڈا لادیں گے۔ اچھے بچے کوئی روتے تھوڑی ہیں۔‘‘ میں نے محبت و شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اس نے میرا پاکستان توڑدیا ہے۔ اب میں روﺅں نہیں تو اور کیا کروں۔‘‘ محمد علی نے انتہائی سچے اور کھرے انداز میں کہا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان حقیقی طور پر دو ٹکڑے ہوا تھا تو ہمارے اماں ابا کتنے روئے تھے۔ اس وقت یہ بچے مجھے اپنے آپ سے بڑے لگ رہے تھے جو کہ جھنڈے کے پھٹنے کو پاکستان کا ٹوٹنا سمجھتے ہوئے رو رہے تھے جبکہ ہم اس وقت کو یاد کرکے دو آنسو بھی نہیں بہاسکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔!
{rsform 7}