نا شکری کا انجام

          Print 

ایک حکایت ہے کہ کہیں دور ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ تھا۔ جہاں پر چاروں سو طرح طرح کے پیڑ پودے  اگے ہوئے تھے ۔ یہیں پر چیڑکے  درختوں کا  ایک جنگل  بھی تھا  ، جو اپنے اونچے  اونچے تنوں اور  مختلف  انداز کے پتوں کی وجہ سے بالکل منفرد  نظر آتا تھا اور دیکھنے والے لوگ اس کی خوبصورتی میں کھو جاتے تھے۔ ان ہی  درختوں  میں کچھ چیڑ کے درخت ابھی چھوٹے بھی تھے۔    وہ بھی ایک چھوٹا مگر خوبصورت درخت تھا۔ اس کے پتے  ابھی نئے نئے تھے اس لیے ان کا سبز رنگ بھی تازگی لیے تھا۔ ۔ مگر اس کو اپنے  سوئی جیسے پتلے نوک دار پتے بالکل نہیں پسند  تھے۔

اس وجہ سے یہ چیڑ  کا درخت  ہمیشہ اداس ہی رہتا تھا۔ اس  کے ساتھی درخت سمجھاتے تھے کہ ان نوک دار پتوں کی وجہ سے ہم منفرد  دکھائی دیتے  ہیں اور  اللہ نے ہمیں اسی میں خوبصورتی بھی عطا کی ہے۔مگر دن بہ دن چھوٹے چیڑ کی اداسی بڑھتی جا رہی تھی۔

ایک رات اس نے خوب دعا کی کہ اللہ اس کے پتے  ہرے بھرے کر دے۔ صبح اٹھتے اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا جب اس نے اپنے سارے پتے ہرے اور بڑے بڑے دیکھے، مگر اس کی خوشی اس وقت ختم ہو گئی جب ایک بکریوں کے ریوڑ نے آکر اس کے سارے پتے مزے مزے سے کھانے شروع کیے۔ شام تک چیڑ کے اس درخت پر ایک بھی پتہ نہ رہا۔ اب وہ پھر  سے اداس ہو گیا تھا۔

 چھوٹے چیڑ نے  دوبارہ دعا شروع کی کہ اللہ مجھے شیشے /کانچ کے خوبصورت پتے دے دے۔۔۔ وہ تو کوئی جانور نہیں کھا سکے گا۔اور دوسری صبح اس کی یہ  خواہش پوری کر دی گئی۔ آج چیڑ کے  درخت  کے پتے دھوپ میں چمکتے  بے حد  حسین  لگ رہے تھے اور وہ اپنے پتوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کہ اچانک تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے۔ ہوا سے کانچ کے پتے آپس میں زور زور سے ٹکرا کر ٹوٹنے لگے،۔ آندھی ختم ہونے تک چیڑ کے اس پیر پر ایک پتہ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ اپنا یہ حال دیکھ کر دکھ سے بھر گیا ۔ مگر اب بھی اسکی یہی ضد تھی کہ اسے اپنے نوک دار پتے واپس نہیں چاہیں۔اور اس نے   پھر گڑ گڑا کر دعا کی کہ اس پر سونے کے پتے  اگ آئیں۔ 

اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی ۔ سنہری پتوں کی وجہ سے چیڑ کا چھوٹا سا  یہ پیڑ سب درختوں میں جدا نظر آ رہا تھا۔ سارے ہی درخت اس پر رشک کر رہے تھے اور وہ اسی خوشی میں ہوا کے ساتھ ساتھ جھوم رہا تھا کہ  وہاں سے ایک لکڑ ہارے کا گزر ہوا۔  جب اس نے سونے سے لدے پتوں کا درخت دیکھا تو سوچا کہ یہ سارے پتے بیچ کر وہ بہت سے پیسے کما سکتا ہے۔اس طرح اسکی بہت سی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اور یہ سوچتے ہی اس نے جلدی جلدی سارے  سنہری پتے توڑ  لیے۔ کچھ ہی دیر میں چیڑ کا درخت غم و تکلیف سے رو رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف سارے درخت  اپنی اصل شکل میں کھڑے  ماحول کی تازگی اور خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے جبکہ وہ بالکل اجاڑ نظر آ رہا تھا۔

اب اسے اپنی غلطی اور بے جا خواہش کا احساس ہوا۔  اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی  کہ اللہ نے ہر مخلوق  کو  الگ شکل اور خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے  اور اسی میں ہر مخلوق  کے لیے بھلائی اور خوبصورتی رکھی ہے۔ ہمیں اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں نقص نکال کر شکایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہر حال میں اس  کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔


{rsform 7}