’’اوئے چھوٹے جلدی ہاتھ چلا، دیکھ نہیں رہا آج رش بہت زیادہ ہے اور بقیہ بھی کام ایسے مر مر کر کررہا ہے۔‘‘

نگران نے برتن دھونے والی جگہ کا معائنہ کیا تو وہاں ساجد دھیرے دھیرے برتن مانجھنے میں مصروف تھا۔ آج رش بھی زیادہ تھا اس لیے نگران کو اس کی سستی پر خوب غصہ چڑھا اور زبردست ڈانٹ پلادی۔
بارہ سالہ ساجد اس کی دھاڑ سن کر اندر تک کانپ اٹھا اور تیز تیز ہاتھ چلانےلگا۔ نگران جسے اس کام پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ اس ہوٹل پر کام کرنے والے افراد کی نگرانی کرے کہ کوئی اپنے کام میں کوتاہی تو نہیں برت رہا ہے۔ ساجد نے برتن دھو کر سوکھا کپڑا بھی ماردیا تو نگران نے اسے میزیں اور کرسیوں کی صفائی کا حکم صادر فرمایا۔ ایک بج چکا تھا ہوٹل پر رش میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اسے بھوک بھی ستارہی تھی۔ بارہ بجے سے ہی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے شروع ہوچکے تھے جب کہ کھانا تین بجے ملنا تھا مجبوراً اپنے ناتواں جسم کو اٹھاتا ہوا میزیں اور کرسیوں کی صفائی میں لگ گیا۔ وہ ابھی چھوٹا سا تھا کہ جب اس کے والد کینسر کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ علاج کے حوالے سے قرض بھی خاصا بڑھ چکا تھا۔ رشتہ داروں نے تو فوراً آنکھیں پھیر لیں۔ زاہدہ نے گھر کو سنبھالا دیا اور بچے کی پڑھائی کو جاری رہنے دیا۔ مگر اچانک لوگوں کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے تقاضے نے ساجد کی ماں کو پریشان کردیا۔


گھر اپنا تھا یہ اللہ کا بڑا احسان تھا۔ پریشان حال زاہدہ نے اپنے کام کو بڑھا کر قرض ادا کرنا ضروری سمجھا۔
وہ قرض کی اس لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی، راتوں کو اٹھ اٹھ کر کپڑے سینے سے اس کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ پچھلے دو ماہ سے ساجد کی فیس ادا نہیں ہوئی تو ہیڈ ماسٹر نے ساجد کو بلایا اور کہا۔
’’ہم تمہارے باپ کے نوکر نہیں لگے ہوئے ہیں ہمیں بھی اساتذہ کو تنخواہیں دینی پڑتی ہیں اور تمہارے ساتھ تو خصوصی رعایت بھی کی جارہی ہے مگر اس کے باوجود دو ماہ سے تمہاری فیس جمع نہیں ہوئی۔‘‘
’’مگر وہ سر گھر کے حالات۔۔‘‘ ساجد روہانسا ہوگیا۔
’’میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘  ہیڈ ماسٹر نے ساجد کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اگر ایک ہفتے کے اندر اندر تمہاری فیس جمع نہ ہوئی تو تمہیں امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔اب جاؤ اور اگلے بدھ کو اسکول فیس سمیت آنا ورنہ اپنی شکل دکھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

 ساجد نے اپنے آنسو بمشکل ضبط کیے اور باہر نکل آیا۔
وہ اپنی ماں پر بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے خود کوئی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں زاہدہ اجازت دینے پر تیار نہ تھی مگر عبدالمالک جو کہ ان کا ایک اچھا پڑوسی تھا نے کہا بہن جی فکر نہ کریں۔ یہ میرے ساتھ ہی رہے گا۔ بہت بڑا ہوٹل ہے۔ ایک ہفتے میں اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے۔
’’مگر بھائی صاحب، ساجد تو ابھی بہت چھوٹا ہے۔‘‘  زاہدہ فکر مندی سے بولی۔
’’بہن جی اگر آج اس کی تعلیم ادھوری رہ گئی تو یاد رکھنا ہوٹل پہ کام کرنا آج چند دن کی بات ہے۔ کل کلاں امتحان نہ دے سکا تو ساری زندگی اسی ہوٹل میں گزرے گی۔‘‘

 مجبوراً زاہدہ کو اپنے بچے کے تابناک مستقبل کے لیے حامی بھرنی پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچوں کے لباس تقریباً ایک جیسے تھے۔ پرفیوم کی ایسی خوشبو اٹھ رہی تھی کہ گویا پرفیوم کی ساری بوتلیں کپڑوں پر انڈیل لی گئی ہوں۔
’’یار جمیل بھائی اس ہوٹل کے کھانوں کی دھوم دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ آج تو مزہ آجائے گا۔‘‘ ان میں سے ایک بولا۔
’’اس ہوٹل کو دیکھ کر تو میری بھوک چمک اٹھی ہے۔‘‘ دوسرے نے لقمہ دیا۔ وہ پانچوں ہوٹل کی طرف بڑھنے لگے ہی تھے کہ اچانک ایک بچہ ان کے سامنے آیا۔ اس کے ہاتھ میں بے شمار گلاب کے پھول تھے۔
’’صاحب جی ایک پھول لے لو نا، صرف ایک پھول۔‘‘
ننھے بچے نے گویا التجا شروع کردی۔ جمیل صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو روپے کا نوٹ بچے کو دیتے ہوئے کہا۔ ’’جا
بیٹا، یہ میری طرف سے تحفے کے طور پر قبول کرلو۔‘‘ بچہ پہلے تو جھجکا پھر نوٹ لے کر ایک سمت چل پڑا۔ اب یہ قافلہ پھر ہوٹل کی جانب گامزن ہوا لیکن اب ان کا موضوع بدل کرہیڈ ماسٹر جمیل صاحب کی فیاضانہ طبیعت کی طرف مڑ چکی تھی۔
’’اپنے جمیل صاحب نے شاید ہی کبھی کنجوسی کی ہو۔‘‘ ان میں سے پہلے والے نے کہا تو دوسرا بھی بول اٹھا۔

’’ ہاں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘  وہ پانچوں ہوٹل میں سجی خوبصورت میزوں کے گرد کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔
تیسرا بولا۔’’ حضرت جمیل بھائی کے ساتھ میرا اکثر دوسرے شہروں میں جانا ہوا ہے اور راستہ میں کسی بھی قسم کے بچے نے کوئی چیز بیچنا چاہی تو جمیل صاحب نے بغیر کوئی چیز لیے ایک بڑی رقم اس بچے کے حوالے کی ہے۔‘‘  تیسرا اچانک جمیل صاحب کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’جمیل صاحب وہ بچے والا واقعہ یاد ہے؟‘‘

’’کون سا واقعہ؟‘‘ جمیل صاحب انجان بنتے ہوئے بولے۔
’’ارے وہی جو اپنی ماں کی آنکھوں کے آپریشن کے لیے بھیک مانگ رہا تھا اور آپ نے اسی وقت جو دس ہزار اس بچے کے حوالے کردیے تھے اور سب لوگ آپ کی تعریف بھی کررہے تھے۔ اخبار میں شاید خبر آئی تھی۔‘‘
جمیل صاحب بولے۔ ہاں، ہاں یاد آگیا۔ ی

’’ہ ویٹر کہاں ہے۔‘‘ چوتھا جو اب تک خاموش تھا بول اٹھا۔
’’وہ آرہا ہے۔ دوسرے نے سرگوشی کی، بیچارے کو دیکھو تو سہی۔ ابھی عمر ہی کیا ہے۔‘‘  ننھا ویٹرساجد نزدیک آچکا تھا۔
’’جی سر آرڈر دیجیے۔‘‘
آواز سن کر جمیل صاحب نے ویٹر کو غور سے دیکھا۔
’’ارے ساجد تم۔‘‘
’’سر، آپ یہاں! ‘‘ساجد نے اپنے ہیڈ ماسٹر کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔
’’ارے ارے، جمیل صاحب یہ وہی بچہ نہیں ہے جسے آپ کے اسکول بھر میں غالباً فرسٹ ڈویژن آنے پر خصوصی انعام دیا گیا تھا۔‘‘
’’ہاں یہ وہی ہے۔‘‘ جمیل صاحب نے اعتراف کیا۔
’’ارے ننھے بچے تم یہاں کیسے، تمہارے پرنسپل تو نہایت دریا دل ہیں۔ کیا تم اب بھی ان کے اسکول میں پڑھتے ہو۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اگر تم پر کوئی مصیبت آہی گئی تھی اور تمہیں یوں ہوٹلوں میں کام کرنا پڑا تو اپنے پرنسپل کو کیوں نہیں بتایا۔ وہ تمہاری مدد کردیتے۔‘‘  چوتھے نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ درحقیقت وہ سب جمیل صاحب
کے دکھاوےسے بخوبی واقف تھے۔ جمیل صاحب صرف دکھانے کو ہی سخاوت کرتے تھے۔
’’یار چھوڑو، بھوک لگی ہے کھانا منگواؤ۔‘‘ جمیل صاحب نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
’’نہیں، جمیل صاحب یہ بہت ذہین بچہ ہے ضرور کوئی مسئلہ ہے۔بیٹے تم اپنا سمجھو شاید ہم تمہاری مدد کرسکیں۔‘‘
پہلا بولا۔
’’وہ دراصل۔۔۔‘‘ ساجد کہنے لگا۔

 جمیل صاحب کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ انہوں نے اسے گھور کر منع کرنے کی کوشش کی مگر چوتھے کی نظر جمیل صاحب پر ہی تھی۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔
’’وہ دراصل قرض ہم پر بہت بڑھ چکا تھا۔ ماں رات کو دیر تک کام کرتی۔ اس وجہ سے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ قرض ادا کرتے کرتے میری دو ماہ کی اسکول کی فیس ادا نہ ہوسکی۔کل پرنسپل صاحب نے کہا تھا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر اندر فیس نہ دی تو امتحان میں بیٹھنے نہیں دوں گا۔ اسی وجہ سے یہاں کام کرنے کے لیے آیا تاکہ فیس ادا کرکے امتحان دے سکوں۔‘‘

 ان چاروں نے حیرت بھری نظروں سے ماسٹر صاحب کو دیکھا جن کی نظریں شرم و ندامت سے جھکی ہوئی تھیں اور وہ سوچ رہے تھے کہ ریا کاری کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ کاش زمین پھٹ جائے اور میں زمین میں سماجاؤں۔ مگر اب ممکن نہ تھا لیکن ایک تبدیلی وہ اپنے اندر محسوس کررہے تھے۔