! اگر ہم یکجان ہو جائیں

          Print

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی صحرا میں چڑیوں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ انھوں نے گھاس پھونس میں انڈے دیے تھے جن سے بچے نکل آئے تھے۔ ایک ہاتھی کا بھی اسی صحرا میں بسیرا تھا۔ ایک دن ہاتھی اپنی پیاس بجھانے کے لیے دریا کی طرف جا رہا تھا کہ گھاس سے گزرتے ہوئے وہ چڑیوں کے چند بچوں کو کچل کر آگے نکل گیا۔ جب چڑیوں کومعلوم ہوا تو انہوں نے  اس سانحے پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرنا شروع کیا۔

ایک بولی: "قسمت میں یہی لکھا تھا۔" دوسری بولی: " کوئی چارہ نہیں، بس چلیں اور نباہ کریں۔" تیسری بولی: " دنیا ہمیشہ سے بدبختی کا گھر ہے۔" ایک چڑیا جو ان سب سے مختلف تھی اور بڑی بہادر تھی اور جس کا نام کاکُلی تھا، بولی: " مجھے آپ لوگوں کے ایک حرف سے بھی اتفاق نہیں۔ صحرا زندگی گزارنے کا ایک مقام ہے اور بہت عمدہ ہے۔ لیکن زندگی کے لیے حساب اور احتساب بھی لازمی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی ہاتھی آیا اور چڑیا کے بچوں کو پاؤںتلے روندتا ہوا یہ جا وہ جا۔"

چڑیا ں بیک زبان بولیں۔ " واقعی اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے لیکن فی الحال وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یہاں سے ایسی جگہ کوچ کر جائیں جہاں ہاتھی نہ ہو۔"

کاکُلی بولی: " یہ نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کسی کا کہیں دشمن ہو وہ وہاں سے راہ فرار اختیار کرکے کہیں اور چلا جائے؟ یہ درست نہیں۔ ہمیں اپنے حق کا دفاع کرنا چاہیے۔ یہ جگہ ہمارا وطن ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمن کے شر سے اسے بچائیں۔ ہم اپنی جگہ کیوں چھوڑیں؟  ہاتھی کوئی دوسرا رستہ کیوں اختیار نہیں کرتا؟"

چڑیاں بولیں۔ " بات تو درست ہے لیکن یہ بات ہاتھی سے کہے کون؟‘‘  کاکُلی بولی۔" ہم کہیں گے۔ کیا ہمیں زندگی گزارنے کا حق نہیں؟ چلیں ہم ہاتھی کو متنبہ کرتے ہیں کہ اسے ہماری حدود میں آنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔"

چڑیاں بولیں۔" اگر ہاتھی نے ہماری بات نہیں مانی، اور اس نے کڑوی کسیلی شروع کی اور لڑائی بھڑائی پر اتر آیا تو پھر؟‘‘

کاکُلی گویا ہوئی: " اگر ہاتھی نے اس سیدھی اور صحیح بات کے ماننے سے انکار کیا تو میں اسے ایسا مزا چکھاؤں گی کہ لوگ اس کی کہانیاں کہا کریں گے۔ہمارا موقف بالکل درست ہے اور یقین ہے کہ ساری خلقت ہماری حمایت کرے گی۔"

چڑیاں یہ سن کر ہنسنے لگیں۔ پھر بولیں۔’’ تو ایسے بڑے بول کیوں بول رہی ہے۔ کیا ہم ہاتھی سے الجھنے کی سکت رکھتی ہیں؟‘‘

کاکلی بولی ۔" کیوں نہیں۔ اگر ہم یکجان ہو جائیں تو یہ ممکن ہے۔ ہاتھی کی تو اوقات ہی کیا ہے۔ اگر کوئی ہاتھی سے زیادہ بڑا جانور بھی ہم پر ظلم کرنا چاہے اور ہم اسے سہنے پر تیار نہ ہوں تو اس کا کوئی زور ہم پر نہیں چل سکتا۔"

چڑیاں بولیں: " ہم حاضر ہیں۔ بتا ہمارے لائق کیا خدمت ہے؟‘‘

کاکلی بولی۔’’ ذرا رکیں، پہلے تو میں حجت پوری کروں گی اور اپنے نقطہ نظر سے ہاتھی کو آگاہ کروں گی۔ اگر اس نے میری بات مان لی تو ہمارا اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اگر نہ مانی تو میں اسے یاد دلاؤں گی کہ جب مچھر عاجز آئے تو ہاتھی کو لے بیٹھتا ہے۔‘‘

کاکلی اڑی اور ہاتھی کے مقابل کے مقابل آکر بولی۔ " میاں ہاتھی! آج جس وقت تم پانی پینے نکلے اور گھاس کے قطعے سے آگے بڑھے تو ہمارے کئی بچے تم نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالے۔ کیا تمہیں اس کا علم ہے یا نہیں؟‘‘

ہاتھی بولا: " میرے جاننے نہ جاننے سے کیا فرق پڑتا ہے؟"

کاکلی بولی: "فرق یوں پڑتا ہے کہ اگر تم سے غلطی بے جانے بوجھے ہوئی تو آج کے بعد جان لو کہ ہمارے حق میں ظلم ہوا اور اگر تم جانتے اور سمجھتے ہو تو پھر دوسری بات ہے۔"

ہاتھی بولا: " آہا آخر ہوا کیا؟ قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑی!"

کاکلی بولی: " قیامت ٹوٹ نہیں پڑی لیکن اگر سب لوگ اسی طرح ظلم اور بدی کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو قیامت آلگے گی۔ تم خود بھی جانتے اور سمجھتے ہو۔ میں اس لیے آئی ہوں کہ تم سے دوبارہ اپنی طرف نہ آنے کی درخواست کروں کیوں کہ وہ جگہ ہماری جائے زندگی ہے۔"

ہاتھی بولا۔" پانی پینے کے لیے جاتے ہوئے وہی میری گزرگاہ ہے۔"

 کاکلی بولی۔ "دنیا بہت بڑی ہے میاں ہاتھی! کسی ایسی جگہ سے گزرا کرو کہ دوسروں کے بچے پامال نہ ہوں۔"

ہاتھی ہنکارا۔ " پامال بھی ہوجائیں تو کیا برائی ہے؟ سو چڑیاں ایک ہاتھی کی قدر و قیمت نہیں رکھتیں۔ ہاتھی ہاتھی ہے!"

کاکلی نے کہا: " یقینا ہاتھی بڑا ہے لیکن ہمارے لیے ہماری جان بھی بڑی عزیز اور پیاری ہے اور اگر تمہاری سوچ صحیح نہج پر ہو اور تم انصاف سے کام لو تو تمہیں ایسی باتیں کہنے کا کوئی حق نہیں۔ جس طرح تمہارادل چاہتا ہے کہ تم اور تمہارے بچے آرام سے زندگی بسر کریں ہم بھی چین سے زندگی گزارنے کی آرزومند ہیں۔ کیا تمہیں اچھا لگے گا کہ کوئی آئے تمہارے گھر کو اجاڑ دے اور تمہارے بچوں کو در بدر کر ڈالے؟"

ہاتھی بولا: " کسی میں مجھ ایسی طاقت نہیں۔ میں ہاتھی ہوں جو میرے جی میں آئے کرتا ہوں۔"

کاکلی بولی: " کسی بھول میں نہ رہو کیوں کہ اگر نا انصافی ہونے لگے تو پھر ہر کسی کا زور ہر کسی پر چلنے لگتا ہے۔ اپنے اس جسم پر مت پھولو! زندگی صرف عدل اور دوستی سے حلاوت پاتی ہے۔ ہم بھی چاہیں تو تمہیں اذیت دے سکتے ہیں۔"

ہاتھی نے کہا۔"لو مجھے دیکھو کہ تجھ نادان چڑیا کا جواب دینے بیٹھ گیا۔ اری! یہ بے جا مداخلت ختم کر! گھاس کا قطعہ میری مالکیت ہے۔"

کاکلی بولی۔ "میاں ہاتھی مخالفت اور عناد سے باز آؤ۔ میں نے صاف سیدھی بات کی ہے۔سب جانتے ہیں خود تم بھی جانتے ہو۔ میں یہاں آئی تم سے ایک درخواست کی۔ ہم پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرو ورنہ خود نقصان اٹھاؤ گے اور ہم تمہیں ایسا مزہ چکھائیں گی کہ اس کی داستانیں بنیں گی۔"

اب چڑیوں کا حملہ شروع ہوا۔ وہ ہاتھی کے اردگرد منڈلانے لگیں اور اس سے پہلے کہ ہاتھی حرکت میں آتا، چڑیاں اس کی آنکھیں نکال چکی تھیں۔ اب ہاتھی کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا!

چڑیاں اکٹھی ہوئیں اور بولیں۔ " یہ تو بہت برا ہوا۔ اب ہاتھی غضبناک ہو کر سارے گھاس میدان کو پامال کر دے گا۔ "

 کاکلی نے کہا" نہیں نہیں!  ہاتھی کو اب کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ پیاسا بھی ہے۔ اب مینڈکوں سے مدد لینے کا وقت آگیا ہے۔"

 کاکلی نے مینڈکوں کو آواز دی اور ہاتھی کے ظلم کی تفضیل سے انھیں آگاہ کیا۔ مینڈک بولے۔" ہمیں خوب معلوم ہے، ہم ہاتھی کے ہاتھوں خود عذاب میں ہیں۔"

کاکلی بولی۔" تو پھر ہماری مدد کریں۔ آدھا کام ہم کر چکیں، باقی آدھا تمھارے ہاتھ میں ہے۔ میری تجویز پر عمل کرو۔"  کاکلی نے مینڈکوں کو یکجا کردیا۔

مینڈک ہاتھی کے سامنے جمع ہوئے اور انھوں نے ٹرّانا شروع کردیا۔ ہاتھی پیاسا تھا۔ اس نے دل میں کہا۔" جہاں مینڈک ہے وہاں ضرور پانی ہے۔ چوں کہ وہ اندھا ہو چکا تھا اس نے بے سوچے سمجھے آگے بڑھنا شروع کردیا۔ مینڈکوں نے مسلسل شور کرنا شروع کردیا اور چلتے گئے چلتے گئے حتی کہ ایک وسیع گڑھے تک پہنچ گئے جو بہت گہرا تھا اور اس میں بارش کا کچھ پانی بھی جمع ہوگیا تھا۔ مینڈک گڑھے کے دونوں جانب چل رہے اور ٹرّا رہے تھے۔ ہاتھی بھی پانی کی تڑپ میں آگے بڑھ رہا تھا حتی کہ وہ گڑھے کے بالکل پر پہنچ گیا اور سیدھا اس میں جا گرا۔ اب اس میں گڑھے سے باہر نکلنے کی سکت نہ تھی۔ چڑیوں اور مینڈکوں نے سکھ کا سانس لیا۔

اس وقت کاکلی، ہاتھی سے مخاطب ہوئی۔"یہ اس شخص کی سزا ہے جس میں انصاف نہیں، جو لوگوں کی جان پر رحم نہیں کھاتا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اب تیرا یہی ٹھکانا ہے۔  میں چلتی ہوں اور جیسا کہ میں نے کہا تھا میں چڑیا اور ہاتھی کا قصہ لوگوں کو سناتی ہوں تا کہ اسے داستانوں میں جگہ دیں۔"


{rsform 7}