ایک عقاب اور ایک الو میں دوستی ہو گئی۔ عقاب بولا ”بھائی الو اب تمہارے بچوں کو کبھی نہیں کھاوٴں گا۔ مگر یہ تو بتاوٴ کہ ان کی پہچان کیا ہے۔؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے پرندے کے بچوں کے دھوکے میں ہی کھا جاوٴں۔“

الو نے شیخی بگھارتے ہوئے جواب دیا۔ ”بھلا یہ بھی کوئی مشکل بات ہے۔ میرے بچے سب پرندوں کے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ ان کے چمکیلے پر دیکھ کر تم ایک ہی نظر میں پہچان جاوٴ گے اور۔“

 

 

عقاب نے الو کی بات کاٹ کر کہا ”بس بس میں سمجھ گیا۔ اب، اب میں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔ مگر بھائی ہر بات کو پہلے ہی پوچھ لینا اچھا ہے۔ پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اچھا پھر ملیں گے۔ اللہ حافظ۔“ یہ کہہ کر عقاب اڑ گیا۔

دوسرے دن عقاب شکار کی تلاش میں ادھر ادھر اڑ رہا تھا کہ اسے ایک اونچے درخت کی شاخ پر کسی پرندے کا گھونسلا نظر آیا۔ گھونسلے کے اندر چار پانچ کالے کلوٹے بد شکل بچے موٹی اور بھدی آواز میں چوں چوں کر رہے تھے۔ عقاب نے سوچا یہ بچے میرے دوست الو کے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ نہ تو یہ خوبصورت ہیں اور نہ ان کی آواز میٹھی اور سریلی ہے۔ یہ سوچ کر عقاب نے ان بچوں کو کھانا شروع کر دیا۔

وہ سب بچوں کو کھا چکا تو الو اڑتا ہوا آیا اور شور مچا کر کہا۔ ”ارے تم نے یہ کیا کیا؟ یہ تو میرے بچے تھے۔“ عقاب گھبرا کر اڑ گیا۔ ایک چمگاڈر نے جو پاس ہی اڑ رہی تھی الو سے کہا ”اس میں عقاب کا کوئی قصور نہیں۔ ساری غلطی تمہاری ہے جو کوئی کسی کو دھوکا دے کر اپنی اصلیت چھپانے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہی انجام ہوتا ہے۔“