بادشاہ اور قیدی

          Print

کسی بادشاہ نے ایک قیدی کے قتل کا حکم دیا۔ قیدی بیچارہ جب زندگی سے ناامید ہو گیا تو اس نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں دیں۔ کسی نے سچ کہا ہے:

جو اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے وہ جو جی میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے۔ مجبوری کے وقت جب بھاگنے کا موقع نہیں ملتا ہے تو انسان اپنی جان بچانے کے لیے تیز تلوار کی دھار کو ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے اسی طرح جب آدمی

اپنی زندگی سے ناامید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح مجبور بلّی تنگ آکر کتّے پر حملہ کر دیتی ہے!

بادشاہ نے پوچھا یہ قیدی کیا کہہ رہا تھا۔ ایک نیک خصلت وزیر نے جواب دیا۔ حضور یہ قیدی کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطا معاف کر دیتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کو رحم آگیا اور اس نے قیدی کی خطا معاف کر دی اور اس کو رہا کر دیا۔

یہ دیکھ کر ایک دوسرا وزیر جو پہلے وزیر کا دشمن تھا، بول اٹھا کہ ہمارے ساتھی وزیر کو جھوٹ نہ بولنا چاہیے۔ اس قیدی نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں بھی دیں۔ بادشاہ اس کی بات سن کر بہت ناراض ہوا اور کہا کہ پہلے وزیر کی جھوٹی بات تمھاری سچّی بات سے مجھے زیادہ پسند آئی۔ کیونکہ وہ اس موقع پر مناسب تھی اور تم نے جو سچّی بات بتائی وہ مناسب نہ تھی اور تم نے بُری نیت سے کہی تھی۔ عقل مندلوگوں نے کہا کہ جھگڑا فساد پیدا کرنے والی سچّی بات سے وہ جھوٹی بات کہنا زیادہ بہتر ہے کہ جس سے فساد پیدا ہونے کا ڈر ہو۔ (بادشاہ جس شخص کا کہنا مانتا ہو اس کو چاہیے کہ مناسب بات کرے) ایران کے بادشاہ فریدوں نے اپنے محل کے دروازے پر یہ تحریر لکھوائی تھی:

اے بھائی! یہ دنیا کسی کا ساتھ نہیں دیتی۔ تم اپنے دل میں صرف اللہ کی محبت کو جگہ دو دنیا کی جائداد پر ہرگز بھروسہ نہ کرو۔ اس دنیا نے تم جیسے بہت لوگوں کو پالا، پوسا اور بڑا کیا اور مار ڈالا۔

جب انسان کی عمر ختم ہونے کا وقت آتا ہے اور جان بدن سے نکلنے لگتی ہے تو اس وقت چاہے شاہی تخت پر دم نکلے، چاہے خالی زمین پر برابر ہے کیونکہ آخر میں سب مٹی میں مل جاتے ہیں!


{rsform 7}