نازک صحب ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ نام تو ان کا اللہ جانے کیا تھا لیکن اپنی حرکتوں اور حلیے کی وجہ سے سارے محلے میں نازک صاحب کے نام سے مشہور تھے۔
دبلے پتلے دھان پان آدمی تھے۔ پھونک مارو تو اڑ جائیں۔ ذرا سی بات پر بگڑ جاتے تھے۔ جب وہ کوٹ پتلون پہنے، باریک سنہری کمانی کا چشمہ لگائے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے میں بکرےے کی رسی تھامے محلے میں نکلتے تھے تو ان کی دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے راہ چلتے لوگ بھی رک کر انہیں دیکھنے لگتے تھے۔ کبھی چھوٹے چھوٹے پتھروں پر پائوں رکھنے سے انہیں موچ آجاتی اور کبھی اپنے بکرے کی مریل سی "میں ایں" سن کر ڈر جاتے۔ ان کا بکرا بھی خوب تھا۔ موٹا تازہ کالے رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ محلے میں نازک صاحب سےز یادہ ان کا بکرا مشہور تھا۔ نازک صاحب نے اسے بڑے پیار سے پالاتھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے بکرے کو ہاتھی بھی لگائے۔ وہ اکثر اپنے بکرے کی عظمت، ذہانت اور اس کے اعلیٰ خاندان کے قصے سنایا کرتے تھے۔
کہتے تھے کہ "اس سے ذہین، خوب صورت، بہادر اور شریف نسل کا بکرا آج تک پیدا نہ ہوا، اس بکرے کا پر دادا مغل بادشاہوں کا پالتو اور شاہی بکرا تھا۔ اس کا دادا پنجاب کے سکھ حکم راں رنجیت سنگھ کے ہاں پلا بڑھا تھا۔ اس بکرے کی ماں دوسری جنگ عظیم میں انگریز فوجوں کے ساتھ محاذ جنگ پر رہتی تھی اور انگریز فوجیوں نے کئی لڑائیاں صرف اس بکری کا دودھ پی پی کر جیتی تھیں"۔
اس پر کوئی بچہ مذاقاً کہتا، "پھر تو اس کی ماں بکری کو بہادری کے صلے میں کوئی بڑا تمغا بھی ملا ہوگا"۔
تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہتے، "ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اسے انگریز فوج کا سب سے بڑا تمغا وکٹوریا کراس ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بکرا بھی بہت بہادر ہے۔ ایک بار اس نے ڈاکوئوں کو مار بھگایا تھا"۔
حالاں کہ وہ بکر اتنا ڈر پوک تھا کہ بلیاں بھی اسے ڈراتی تھیں۔ اسی لیے محلے کے بچے کہا کرتے تھے: "نازک صاحب کا بکرا چوہا ہے چوہا، " یہ سن کر نازک صاحب بہت خفا ہوتے تھے۔ بکرے کی اس بزدلی نے اس دفعہ بقر عید پر عجب گل کھلایا۔ آپ بھی سنیے:
کرنا اللہ کا یوں ہوا کہ دادی اماں نے ہمارے ابا جان سے کہا کہ بقر عید قریب آرہی ہے۔ قربانی کے لیے اچھا سا بکرا لے آئو۔ ابا جان عید سے دو روز پہلے ایک بکرا لے آئے۔ موٹا تازہ، سیاہ رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ اس وقت تو ہم نے غور نہیں کیا لیکن بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ یہ بکرا نازک صاحب کے بکرے سے بہت ملتا جلتا ہے۔ وہی رنگ وہی کاٹھ۔ خیر صاحب بکرا تو انا جان لے آئے لیکن وہ بکرا کیا تھا اچھا خاصا غنڈہ تھا۔ کم بخت نے آتے ہی پڑوس کے بکرے کو ایسی ٹکر مارے کہ بے چارہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا، دور جاگرا، پھر محلے کے دو چار آدمیوں کو سینگ مارے تو بے چارے بلبلا کر رہ گئے۔ بڑی مشکل سے پانچ چھے آدمیوں نے مل کر اسے رسی سے باندھا۔ اس پر اس نے ایک ایسی خوف نازک آواز میں "میں" کی کہ بکرے تو بکرے ایک دفعہ تو محلے بھر کے بیل اور گائے بھی سہم کر رہ گئے۔ جو بچے اس انتظار میں تھے کہ بکرا آئے گا تو اسے ٹہلانے لے جائیں گے وہ سب سانس روکے اپنی اپنی مائوں کے پیچھے دبک گئے۔
"یاالہٰی، یہ بکرا ہے یا پہلوان، کسی کے قابو میں ہی نہیں آتا"۔ امی نے کہا۔
"ارے بیٹا، یہ کیا اٹھا لائے ہو"۔ دادی اماں ہمارے ابا جان سے کہنے لگیں، "مجھے تو لگتا ہے یہ بکرا نہیں کوئی جن بھوت ہے"۔
"مجھے بھی یہی لگ رہا ہے"۔ خالہ بی نے کہا۔
ابا جان بولے، "کمال کرتے ہیں آپ لوگ بھی۔ بکرا ذرا طاقت ور ہے صحت مند ہے۔ بس بے چارہ نئے ماحول اور نئی جگہ سے گھبرا رہا ہے۔ کل تک ٹھیک ہوجائے گا"۔
لیکن کل تک تو اس نے زور لگا لگا کر رسی توڑ دی اور باہر سڑک پر نکل بھاگا۔ راستے میں جو بکرا بھی اسے ملا اس سے الجھتا گیا اور ہر آنے جانے والے کو ٹکریں مارتا گیا۔ پورے محلے میں شور مچ گیا۔ لوگ دوڑ پڑے۔ (جاری ہے)