شرارتی کِن کِن

          Print

"بیٹا چائے پی لو۔" ناصر نے جوتوں کے تسمے باندهتے ہوئے سر اٹها کر دیکها۔ 
اماں چائے کا کپ لیے دروازے میں کهڑی تهیں۔ اس کے چہرے پر بے زاری پهیل گئی۔ 
تهوڑی دیر بعد وہ انٹرویو پر جانے کے لیے بالکل تیار تها۔
"بیٹا تو نے چائے نہیں پی۔ چائے۔۔۔" لیکن ناصر چوکهٹ پار کر کے جا چکا تها۔ 
پتہ نہیں اس نے چائے کیوں نہیں پی۔ اماں سوچتے سوچتے کچن میں کپ رکهنے گئیں تو وہاں پہلے سے ایک اور چائے کا کپ دیکھ کر الجھ کر رہ گئیں۔ 


-----------
"ناصر بیٹا کهانا کها لو۔" اماں کوئی تیسری بار اسے جگانے آ گئیں تهیں۔ 
"اماں خدا کے لیے مجهے سونے دیں۔" ناصر سرخ آنکھوں کے ساتھ اٹھ بیٹها۔
"بیٹا وہ تو بهوکا سویا ہوا ہے ناں تو مجهے بهی نیند نہیں آرہی۔" اماں کے لہجے میں کیسی بے چارگی تهی۔ 
ایک لمحے کو ناصر کے دل کو کچھ ہوا لیکن پهر سارے دن کی تھکاوٹ اعصاب پر غالب آگئی۔وہ کوئی جواب دیے بنا تیزی سے اٹها اور دوسرے کمرے میں جا کر دهاڑ سے دروازہ اندر سے بند کر لیا اور سو گیا۔ 
----------
"پتہ نہیں اتنا غصہ کیوں ہو جاتا ہے۔ کچھ بتاتا بهی نہیں ہے۔۔۔ یا شاید میں ہی بهول جاتی ہوں۔۔۔" اماں سوچوں میں گم تهیں۔ آج اتوار تها اور اماں نے ناصر کے لیے اس کی پسندیدہ مٹن کڑاہی بنائی تهی۔ ناصر بهی بڑے اچهے موڈ تها۔ اچانک اماں کو کچھ خیال آیا۔
"ناصر! وہ تجهے جاب مل گئی؟" 
ناصر کا چہرہ اتر گیا۔ 
"اماں کل شام سے اتنی بار بتا چکا ہوں کہ مجهے جاب نہیں ملی۔ پهر بهی آپ بار بار پوچھ کر مجهے مزید پریشان کیوں کرتی ہیں؟"
اماں خاموش سی ہو گئیں۔ ناصر نے بس جیسے تیسے کهانا ختم کیا۔ 
----------- 
آج وہ بہت تهک گیا تها۔ نئی نئی جاب تهی اور باس کو خوش کرنے کے لیے وہ جی توڑ محنت کر رہا تها۔ رات کا کهانا کها کر وہ ابهی لیٹا ہی تها کہ اچانک اماں چلی آئیں۔
"ناصر! کهانا کها لو بیٹا۔ تم نے کهانا کیوں نہیں کهایا؟" اماں نہایت فکر مند لگ رہی تهیں۔
"اماں!!" ناصر نے بے بسی سے اماں کو دیکها۔ وہ ہمیشہ کی طرح ابهی تهوڑی دیر پہلے کی بات بهول چکی تهیں۔
"اماں دیکھیں میں نے اور آپ نے ابهی کهانا کهایا تو ہے۔ آپ کیوں بار بار بهول جاتی ہیں۔ مجهے پلیز سونے دیں اماں۔ ایک تو میں آج اتنا سخت تهکا ہوا ہوں اوپر سے آپ کی باتیں۔ میں کل آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاوں گا کیونکہ اب آپ کا یہ مرض میرے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔" نہایت غصہ میں وہ بولتا چلا گیا۔
-----------
"اماں!" آج اسے کوئی جگانے نہیں آیا تها۔ وہ آفس سے بهی دو گهنٹے لیٹ ہو چکا تها۔ پورے گهر میں خاموشی تهی۔ وہ جلدی سے اٹها۔
رات کو میں زیادہ ہی بول گیا۔ لگتا ہے اماں ناراض ہیں۔ اس نے سوچا۔ اور جلدی سے اماں کے کمرے میں چلا آیا۔ 
یہ کیا؟ اماں دوسری طرف منہ کیے لیٹی تهیں۔ نیچے دری پر ایک پرانے سے قاعدے کے زرد صفحے پنکهے کی ہوا سے پھڑپھڑا رہے تهے۔ 
"اماں!" اس نے اماں کو پکارا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا کمزور وجود ہولے ہولے ہل رہا تها۔ لگتا تها وہ بہت دیر سے روتی رہی ہیں۔ 
"اماں آپ۔۔" ناصر نے آگے آ کر ان کے پاس بیٹهنا چاہا لیکن اس کی نظر پهٹے ہوئے قاعدے پر جم کر رہ گئی۔ اسے کچھ یاد آنے لگا۔
--------
"اماں یہ کیا ہے؟"
"بیٹا یہ بلی ہے۔"
ننهے ناصر نے صفحہ پلٹ دیا۔
"اماں یہ کیا ہے؟"
"بیٹا یہ پنکھا ہے۔"
"اماں یہ کیا ہے؟"
"میرے جگر یہ تتلی ہے۔۔"
"اماں یہ کیا ہے"
"میرے چاند! یہ ٹوپی ہے۔۔"
"اماں یہ کیا ہے۔۔۔"
"میرے سوہنے بچے! یہ ثمر ہے۔۔"
اماں یہ کیا ہے
اماں یہ کیا ہے۔۔۔
اردو کے قاعدے کے بعد انگریزی کے قاعدے کی باری آتی۔ لیکن بیگ میں رکهنے کے تهوڑی دیر بعد ہی پهر اس کو رنگ برنگی چیزیں اپنی طرف بلانے لگتیں۔ وہ پھر سے کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا اور اماں سے پوچھنے لگتا۔ 

اماں یہ کیا ہے۔۔
اماں یہ کیا ہے۔۔ 
اور کپڑے سی سی کر تهکی ہاری اماں ۔۔۔سر پر درد کی پٹی باندهے اماں۔۔۔ اماں باورچی خانے میں کالے دیگچوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کرتی  اماں ۔۔۔ پهر سے اس کے ہر سوال پر صدقے واری جانے لگتیں۔محال ہے جو ان کے ماتھے پر ایک شکن بھی آئی ہو۔ بلکہ ننھے ناصر کے ہر سوال پر ان کا پیار پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا۔ ان کے لہجے کی شیرینی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ۔  
----------
ناصر  کی شرمندگی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ آج ایک پھٹے ہوئے قاعدے نے اس کو بہت قیمتی سبق یا دلا دیا تھا۔

’’اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئے۔ تو ان کو اُف تک نہ کہو۔ اور نہ ان کو جھڑ کو۔ بلکہ ان سے نر می سے بات کرو۔ اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا ؤ۔ اور ان کے لئے یوں دعا رحمت کرو۔ اے میر ے پروردگار (تو ان ) پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان لوگوں نے بچپن میں مجھ پر (رحمت اور شفقت) عطا کی۔   (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ۴۲، ۳۲)‘‘

----------

ان گنت شاعروں نے ماں کو پهول چاندنی اور خوشبو کی تشبیہات میں بسایا ہے لیکن بہت ہی کم بیٹے ماں کو اس کے بڑھاپے اور بیماری میں سنبهال سکے ہیں۔کئی رشتے پر خلوص ہونے کا دعوٰ ی کرتے ہیں لیکن یہ صرف ماں ہوتی ہے جو بچوں کی بے حسی اور تلخ کلامی کے بعد بھی ان سے بے لوث پیار کرتی ہے اور کبھی اپنی محبتیں جتاتی نہیں۔
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چِلّاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں
سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں
رات کو کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب کبھی
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں

ہم بلاؤں میں کہیں گھِرتے ہیں تو بے اختیار
خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پہ آجاتی ہے ماں

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں
ضبط تو دیکھوکہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نہ پچھتاتی ہے ماں


{rsform 7}