ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔ ایک دفعہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے سے ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ اس پہاڑ میں سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر سر جھٹکا مگر چونچ پر پڑا وزن کم نہ ہو سکا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ ا ے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں ؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔

اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ چڑیا بھولی بھالی ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے۔

 

مینا کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اسے چڑیا کی شہرت سے حسد ہونے لگا۔ اسے اپنی کالی چونچ سخت بری لگتی۔ وہ چپکے چپکے کئی بار اس پہاڑ کے نیچے گئی۔ سارا دن گزر جاتا مگر نہ پہاڑ آنسو بہاتا اور نہ ہی مینا کی چونچ سونے کی بنی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتی کہ یا تو میری چونچ سونے کی ہو جائے یا چڑیا کی سونے کی چونچ کھو جائے۔ چڑیا مینا کی حسد بھری نظروں سے بے خبر تھی۔

ایک دن مینا چڑیا کے گھر آئی اور بولی۔ چڑیا بہن کسی زمانے میں ہم دونوں میں کس قدر پیار تھا۔ مگر جب سے تمہاری چونچ سونے کی بنی ہے تم نے مجھے بھلا ہی ڈالا۔ چڑیا بولی۔ مینا کیسی باتیں کرتی ہو میری چونچ ضرور سونے کی بن گئی ہے مگر میں نہیں بدلی ہوں۔ تم دل برا مت کرو۔ مینا بولی اگر یہ بات ہے تو کل رات کا کھانا تم میرے ساتھ کھاؤ۔ مل کر خوب باتیں کریں گے، کھیلیں گے اور پیڑ کی شاخوں پر جھولا جھولیں گے چڑیا نے کہا ضرور کل میں شام کو ہی تمہارے ہاں آ جاؤں گی۔ رات کو واپسی پر جگنو خالو مجھے میرے گھونسلے تک چھوڑ دیں گے۔ مینا چڑیا سے وعدہ لے کر پھر سے اڑ گئی اور سیدھی ڈاکٹر لومڑی کے پاس جا پہنچی۔ ڈاکٹر لومڑی نے مینا کو دیکھ کر کہا آؤ مینا کیسے آنا ہوا؟ کہیں بیمار تو نہیں ہو مینا بولی ڈاکٹر صاحبہ کئی دنوں سے سو نہیں سکی نجانے میری نیند کہاں کھو گئی ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے نیند کی دوا دے دیں۔ تاکہ ایک دو دن خوب سو سکوں۔ مینا ڈاکٹر لومڑی سے نیند کی دوا لے کر گھر پہنچی۔ دوائی کو گھونسلے کے ایک کونے میں رکھا اور خود گہری نیند سو گئی۔

اگلے دن چڑیا کے آنے سے پہلے ہی مینا نے دو تین قسم کے اچھے کھانے چڑیا کے لئے تیار کیے۔ انہیں شیشے کی پلیٹوں میں سجایا۔ کھانے میں ڈاکٹر لومڑی کی دی ہوئی نیند کی دوائی شامل کر دی اور کام ختم کر کے چڑیا کا انتظار کرنے لگی۔ بیچاری چڑیا ندی پر جا کر خوب نہائی، پروں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور اپنی سونے کی چمکتی ہوئی چونچ کو خوب چمکایا ا ور مینا کی طرف چل پڑی۔

راستے میں بی بکری سے پھول لئے تو بی بکری بولی واہ چڑیا آج تو پوری ہی سونے کی لگ رہی ہو۔ کیا کسی شادی میں جا رہی ہو۔ چڑیا نے مینا کی دعوت کے بارے میں بتایا اور پھول لے کر چل دی۔ راستے میں ایک درخت پر جگنو خالو نیند کے مزے لے رہے تھے چڑیا نے ان کے کان کے پاس جا کر زور سے چوں چوں کی۔ تو وہ ایک دم سے ڈر کر جاگ گئے۔ چڑیا ہنس دی اور جگنو خالو کو تاکید کرنے لگی کہ رات کو واپسی پر مینا کے گھر سے مجھے میرے گھر تک پہنچا دینا۔ کیونکہ راستے میں اندھیرا ہو جائے گا۔ جگنو خالو نے چڑیا سے وعدہ کر لیا اور چڑیا خوشی خوشی مینا کے گھر جا پہنچی۔

دونوں سہیلیاں بہت پیار سے ملیں۔ کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر مینا نے چڑیا کو کھانا پیش کیا۔ چڑیا کو چاول کے دانوں کی کھیر بہت پسند آئی اور اس نے خوب جی بھر کر کھایا۔ مینا پاس بیٹھی چڑیا کو اصرار کر کر کے اور کھلاتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد چڑیا کو اپنا سر بھاری محسوس ہونے لگا۔ آنکھیں نیند سے بھرنے لگیں۔ چڑیا نے پر ہلا کر اڑنا چاہا مگر نیند کی دوائی اثر کر چکی تھی اور چڑیا بے ہوش ہو گئی۔ چڑیا کے بے ہوش ہوتے ہی مینا نے جلدی سے چڑیا کی سونے کی چونچ والا خول اتارا اپنی کالی چونچ کاٹی اور اپنے منہ پر سونے کی چونچ سجا لی اور جلدی سے جنگل کی سمت اڑ گئی۔ خالو جگنو مینا کے گھونسلے کے باہر کافی دیر تک چڑیا کا انتظار کرتے رہے۔ مگر چڑیا گھونسلے سے باہر نہ آئی۔ چونکہ جگنو چڑیا سے گھر چھوڑنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ اب وہ کسی صورت اپنا وعدہ نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ کیونکہ کسی سے بھی وعدہ کرو تو ہمیشہ پورا کرو۔

اسی لئے وہ مینا کے گھونسلے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ گھونسلے کے اندر کی خاموشی سے جگنو کو کسی خطرے کی بو محسوس ہونے لگی۔ جگنو خالو گھونسلے کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا چڑیا بے ہوش پڑی ہے۔ انہوں نے جلدی سے چڑیا کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چڑیا نے تھوڑی سی حرکت کی اور آنکھیں کھول دیں۔ خالو جگنو نے پوچھا چڑیا تم کون ہو؟ چڑیا بولی۔ خالو جان آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں سونے کی چونچ والی آپ کی بھانجی چڑیا ہوں۔

جگنو خالو بولے۔ مگر تمہاری چونچ تو سونے کی نہیں ہے۔ چڑیا نے گھبرا کر چونچ پر پنجہ مارا تو اسے اپنے ناک کے پاس باریک سی چونچ محسوس ہوئی۔ وہ بھاری بھر کم سونے کا خول غائب تھا۔ اسے ساری بات یاد آ گئی کہ کس طرح مینا نے اسے دھوکہ دیا۔ اس نے مینا کو ادھر ادھر ڈھونڈا۔ مینا وہاں ہوتی تو نظر آتی۔ مینا کو نہ پا کر چڑیا رونے لگی۔ رات کی تاریکی میں چڑیا کے شور نے جنگل میں سوئے تمام پرندوں کو جگانا شروع کر دیا۔ سب چڑیا کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ چیڑ یا زار و قطار رو رہی تھی اور خالو جگنو سب کو بار بار مینا کے دھوکے اور چڑیا کی سونے کی چونچ کا قصہ سنانے میں مصروف تھے۔ سب پرندوں کو مینا پر شدید غصہ تھا کہ آخر مینا نے اپنی دوست چڑیا کے ساتھ ایسا دھوکہ کیوں کیا۔ مینا کو جنگل میں ہر طرف تلاش کیا گیا مگر مینا نہ ملی ہر پرندہ اور جنگل کا جانور چڑیا کو انصاف اور مینا کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اسی لئے زور شور سے مینا کی تلاش جاری تھی۔

کافی دنوں کے بعد جنگل کے آخری حصے سے مسٹر بندر کے کچھ دوست اسے ملنے آئے۔ رات کو بیٹھے تمام بندر گپ شپ لگا رہے تھے۔ طرح طرح کے قصے سنا کر ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش میں تھے ایک مہمان چھوٹے بندر نے کہا۔ میں نے جنگل میں ایک عجیب سی مینا دیکھی ہے ہے تو وہ عام مینا ہی جیسی مگر اس کی چونچ سونے کی ہے۔ اس قدر چمکتی ہے کہ اندھیرے میں بھی روشنی ہو جاتی ہے۔ اسی درخت کی شاخ پر جگنو خالو بھی بیٹھے سوتے جاگتے بندروں کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب جگنو خالو کے کان میں سونے کی چونچ والی مینا کی کبر پڑی تو وہ چونک اٹھے اور غور سے بندر کی بات سننے لگے۔ صبح ہوتے ہی وہ چڑیا کے گھر جا پہنچے اور چڑیا کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ چڑیا نے اپنے تمام خاندان کو اکٹھا کیا اور ماموں الو اور پھوپھو گلہری کو ساتھ لیا اور بندروں کے پاس جا پہنچے۔ بندر بے چارے سوئے پڑے تھے۔ پرندوں کی شور کی آواز نے انہیں جگا دیا۔

ان سے سونے کی چونچ والی مینا کا قصہ پوچھا۔ جگہ درخت کے بارے میں معلومات لے کر پرندوں اور چھوٹے جانوروں کی دو فوجیں تیار کی گئیں۔ مہمان بندروں کی رہنمائی میں رات کی تاریکی میں جنگل کے آخری حصے میں دونوں پہنچیں۔ خالو جگنو اپنے سارے خاندان کے ساتھ روشنی کی سہولت پہنچاتے رہے۔ رات کو ہی اچانک حملہ کر کے سوئی ہوئی مینا کو گرفتار کر لیا گیا۔

اگلی صبح جنگل میں بہت رونق تھی، جنگل کا بادشاہ شیر بڑی شان سے دربار سجائے بیٹھا تھا۔ الو، بندر، ریچھ، ہاتھی، زرافہ، مینا، طوطے، مور اور رنگ برنگی چڑیاں سب جمع تھے۔ تتلیاں اور جگنو بھی ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ شیر کے سامنے دھوکے باز مینا کو پیش کیا گیا۔ الو نے تمام قصہ سنایا۔ ڈاکٹر لومڑی نے گواہی دی کہ مینا نے اس دن اس کے کلینک سے نیند کی دوائی لی تھی اور جگنو خالو نے گواہی دی کہ مینا کے گھونسلے میں اس نے چڑیا کو بے ہوش پڑے دیکھا اور سب سے بڑا ثبوت تو مینا کی سونے کی چونچ تھی جو چمک رہی تھی۔ مینا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔ تمام پرندے شیر بادشاہ سے چڑیا کو انصاف دلانے کی درخواست کر رہے تھے۔

شیر نے تمام گواہیاں سن کر چیتے اور ہاتھی سے مشورہ کیا اور ڈاکٹر لومڑی سے کہا کہ مینا کی سونے کی چونچ اتار کر ابھی چڑیا کو واپس لگا دو۔ ڈاکٹر لومڑی نے حکم کی تعمیل کی اور مینا کی چونچ اتار کر چڑیا کو واپس لگا دی اور مینا کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی سزا کا بندوبست خود کر لیا تھا۔ جب اس نے اپنی کالی چونچ کاٹ کر سونے کی یہ چونچ لگائی تھی اب مینا پورے جنگل میں شرمندہ شرمندہ سی بغیر چونچ کے پھرتی ہے۔ نہ ٹھیک طرح سے دانہ چگ سکتی ہے اور نہ کیڑے مکوڑوں کا شکار۔ اب اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔

ساتھیو! کسی کی اچھی چیز دیکھ کر اپنی چیز کو برا مت سمجھو اور کسی سے حسد مت کرو۔