وہ سخت گرمیوں کی ایک شام تھی بی گلہری کا گھر بوڑھے برگد میں تھا اور اس کے تمام ننھے منے بچے اپنے سونے والے کمرے میں موجود تھے، اگرچہ اُن کے سونے کا وقت کب کا ہوچکا تھا لیکن وہ ابھی تک جاگ رہے تھے۔

نمو بی گلہری کا سب سے چھوٹا بچہ تھا وہ اپنے بستر پر اچھل کود رہا تھا۔ وہ کہنے لگا” مجھے نیند بالکل نہیںآ رہی ہے۔ ابھی باہر تھوڑی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ میں تو ابھی کھیلنا چاہتا ہوں“ دوسروں نے منہ پر انگلی رکھ کر اُسے چپ رہنے کو کہا اور سرگوشی سے اُسے کہنے لگے”اتنا اونچا نہ بولو ورنہ اماں سن لیں گی تو ہم سب مشکل میں پڑجائیں گے“ لیکن نمونے اُن کی نصیحت پر کان دھرنے کی بجائے ہنسنا شروع کردیا اور زور سے بستر پر اُچھلنا کودنا شروع کردیا ۔

 

جب گلہری کے دوسرے بچوں نے دیکھا کہ نمو تو بہت مزا کررہا ہے تو اُنہوں نے نمو کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کیااور اُسکے ساتھ شور مچانے لگے۔ نمو بولا؛”میری طرف دیکھو میں تم سب سے بڑی چھلانگ لگاتا ہو، میں لگا سکتا ہوں“ پھر اچانک ہی اُس نے کھلی کھڑکی کے باہر ہوا میں چھلانگ لگائی اور اُس جنگل کے سب سے اونچے درخت کی سب سے اونچی شاخ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لٹک گیا۔

اُس کے تمام بہن بھائی کھڑکی سے باہر جھانک کر اُسے دیکھنے لگے۔نمو چلانے لگا” مدد، مدد کوئی مجھے نیچے اُتارے“ یہ کہتے ہوئے وہ شاخ سے لٹکا ہوا جھول رہا تھا، تبھی اماں گلہری دروازہ کھول کر اُن کے سونے والے کمرے میں داخل ہوئیں اُنہوں نے بچوں کا شور سنا تھا اور وہ یہی دیکھنے آئیں تھیں کہ آکر ہو کیا رہا ہے۔

جب اُنہوں نے کھڑکی سے جھانکا تو اُنہیں نمو جنگل کے سب سے اونچے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر لٹکا ہوا نظر آیا بی گلہری کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ حیرت سے چلاتی ہوئی پوچھنے لگیں”تم یہاں تک پہنچے کیسے؟ فوراََ واپس نیچے اتر و“ لیکن وہ تو اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اُسکے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔

خود اماں گلہری بھی اتنی بلند اور نازک شاخوں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں وہ بولیں؛ ”میں آنہیں سکتی میں جنگل کے فائر بریگیڈ کو بلاتی ہوں“ جب فائر بریگیڈ وہاں پہنچے اور اتنے اونچے درخت کو دیکھا تو مایوسی سے سرہلائے اورکہنے لگے؛” ہماری سیڑھیاں اتنی اونچائی تک نہیں پہنچ سکتیں۔

بیٹا! تمہیں نیچے کودنا ہوگا“۔ بی گلہری ڈر کر بولیں؛ کودنا ہوگا؟ اُن کے بچوں نے انہیں ڈرے ہوئے دیکھا تو رونے لگے۔ فائر بریگیڈ والے کہنے لگے؛ ڈرنے کی بات نہیں درخت کے نیچے گدم بچھا دیئے گئے ہیں سکون سے چھلانگ لگادو“۔

نمونے جب نیچے نرم گدھا دیکھا تو اس کا خو ف ختم ہوگیا اُس نے پکا ر کر فائر بریگیڈ والوں سے کہا؛ میں سمجھوں گا کہ میں اپنے بستر پر کود رہا ہوں اور دیکھنا میں آرہا ہوں۔ پھر نمو نے ہوا میں چھلانگ لگائی اور باحفاظت گدوں پر آگرا۔

اُسے ذراچوٹ نہ آئی ۔ وہ خوشی سے اپنی باریک آواز میں سب کو بتا رہاتھا؛ مجھے تو چھلانگ لگانے میں بہت مزا آیا، کیا میں دوبارہ چھلانگ لگا سکتا ہوں؟“ اُسکی اَمی سختی سے بولیں؛ ہرگز نہیں ، فوراََ اپنے بستر پر جا کر لیٹ جاؤ اور بالکل اُچھلنا کودنا نہیں “ اُس رات گلہری کے سارے بچوں کو فائربرگیڈ والوں کے خواب آتے رہے۔ جبکہ نمو کو لگا کہ وہ ابھی بھی شاخ سے لٹکا ہوا ہے اُسے پتا تھا کہ اُسے یہ سزا امی کا کہا نہ ماننے پر ملی ہے۔