ناامید مت ہونا

          Print

ىہ بوڑھے عبداللہ کا جىل سے باہر پہلا دن تھا۔صدر پاکستان نے چودہ اگست کى خوشى مىں بہت سارے قىدىوں کى سزا کم کر دى تھى۔ وہ تقرىباً چالىس سال کى قىد کاٹ کر رہا ہوا تھا۔ اس کے کئى دوستوں کو رشتہ دار لىنے آئے ہوئے تھے لىکن عبداللہ کو کون لىنے آتا؟ اىک ہى بىٹا تھا جوکئى سال پہلے فوت ہو گىا تھا ۔ البتہ اس کا پوتا سلىم جىل مىں اسے ملنے آتا رہتا تھا۔
سڑک پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دىکھا۔ بہت کچھ اجنبى ہو گىا تھا۔ اس نے اىک گہرى اور لمبى سانس لى۔ تىز دھوپ سے بھرا چمکدار آسمان ،

فضا مىں پھىلى ملى جلى سى خوشبوئىں اوران گنت آوازىں۔ آزادى کا اپنا اىک مزہ ہے۔ ىہ بات عبداللہ سے بہتر کون جان سکتا تھا۔

وہ سترہ سال کا تھا جب اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر نے نکلا تھا۔ راستوں مىں پڑى لاشىں پھرماں خالہ اور بہنوں کى چىخىں اور سکھوں کى چمکتى کرپانىں اسے کبھى نہىں بھول سکتىں۔ قسمت اسے شدىد زخمى حالت مىں بارڈر پر لے تو آئى لىکن اس کا پورا خاندان قربان ہو گىا تھا۔اس کو ىاد ہے بچپن مىں چھوٹے چھوٹے جھنڈے بنا کر وہ گلى کوچوں مىں نعرے لگاىا کرتے تھے۔ ‘‘پاکستان کا مطلب کىا لاالہ الا اللہ!’’ اور اس کے خاندان کے سب بڑے جب بھى اکھٹے ہوتے نىا وطن پاکستا ہى زىرِ بحث رہتا تھا۔ اىک اىسا وطن جہاں خوشحالى اور امن کا بول بالا ہو گا۔ جہاں سچائى امانتدارى اور محبتوں کے پھول اگىں گے۔ سبب بچے بڑے کتنے پرجوش ہو جاىا کرتے تھے ۔ 

وہ چلتا رہااور ماضى کے اوراق پلٹتا رہا ۔ آخر کار اس کے کمزور پىروں نے مزىد چلنے سے انکار کر دىا تو وہ سامنے پڑے اىک بىنچ پر جا بىٹھا۔ اس کى جىب مىں کچھ پىسے تھے لىکن کھانا خرىد کر لانے کى ہمت نادارد۔
’’بىٹا ذرا ىہ سامنے والے بازار سے دو نان کباب لا دو۔‘‘ اس نے ساتھ بىٹھے اىک نوجوان سے کہا۔
’’جى جى کىوں نہىں۔ مىں ىوں گىا اور ىوں آىا!‘‘ وہ نوجوان خوشدلى سے بولا اور پىسے لے کرچلا گىا۔ کافى دىر ہو گئى۔ عبداللہ کا انتظار انتظار ہى رہا۔ جب مزىد اىک گھنٹے کے بعد بھى اس نوجوان کے آنے کے کوئى آثار نظر نہىں آئے تواس نے نہاىت حىرانى سے سوچا۔ پاکستان اور جھوٹ؟؟
اچانک اىک رکشے والے نے اس کے خىالات کے تسلسل کو توڑ دىا۔
’’بزرگو کدھر جانا ہے؟‘‘وہ پوچھ رہا تھا۔ عبداللہ اٹھ کر کھڑا ہوگىا اور اپنى جىب سے اىک مڑا تڑا سا کاغذ نکال کر اس کى ہتھىلى پر رکھ دىا۔
راستے مىں رکشے والے کو ٹرىفک کانسٹىبل نے روک دىا۔
’’کاغذ دکھاؤ۔‘‘ کانسٹىبل درشتى سے بولا۔ رکشے والے نے کاغذ نکالے اور اس کو تھما دىے۔
’’ہمم۔۔ ‘‘ کانسٹىبل نے ہنکارا بھرا۔
’’ىہ لائٹ کب سے ٹوٹى ہوئى ہے۔ ٹھىک کىوں نہىں کراتے؟ اوئے صادق! لکھ چالان اس کا۔‘‘
رکشے والا ہکا بکا اس کو دىکھنے لگا۔ لىکن کچھ ہى د ىر بعدوہ مسکراتا ہوا سىٹ پر آکر بىٹھ گىا اور رکشہ سٹارٹ کرنے لگا۔ عبداللہ نے کہا۔ ’’بىٹا! تم لائٹ ٹھىک کرالىتے تو چالان نہ بھرنا پڑتا۔‘‘
رکشے والا ہنس پڑا’’نہىں بزرگو! بچاس روپے لے کر چھوڑ دىا ہے ۔ وىسے بھى لائٹ ٹھىک ہوتى بھى تو وہ کوئى اور بہانہ ڈھونڈ لىتے چائے پانى کے لىے !‘‘عبد اللہ سکتے مىں آگىا۔ پاکستان اور رشوت؟؟
راستے مىں اىک پھلوں والى رىڑھى نظر آئى تو عبداللہ نے رکشہ رکوا لىا۔ سیب لے کر وہ واپس رکشے مىں بىٹھا تو رکشے والے نے پچھلے شىشے سے اسے غور سے دىکھا لىکن بولا کچھ نہىں۔
اب وہ نور ٹاؤن مىں داخل ہو رہے تھے ۔ جلد ہى وہ اپنے پوتے کے گھر سامنے کھڑا تھا۔ اس نے جىب سے کچھ پىسے نکال کر رکشے والے کو تھمائے اور شاپر سنبھالتے ہوئے نىچے اتر گىا ۔
’’ىہ کىا!‘‘عبداللہ کو شاپر مىں کچھ زىادہ ہى نرم سا محسوس ہوا۔ اس نے کھول کر دىکھا تو گلے سڑے سىب اس منہ چڑا رہے تھے۔’’لىکن مىں نے تو ۔۔ ‘‘ اس سے زىادہ اس سے کچھ سوچا ہى نہىں گىا۔ پاکستان اور دھوکہ؟؟
وہ شاپر گلى کے نکڑ پر پڑے ڈرم مىں پھىنکنے کے لىے چل پڑا۔ اب تک اس کے سارے خواب جو وہ جىل مىں پاکستان سے متعلق دىکھتا رہتا تھا ملىا مىٹ ہو چکے تھے۔
اس کا رواں رواں سوال کر رہا تھا کہ کىا ىہى وہ ملک ہے جس کے لىے اس زمانے مىں گاؤں گاؤں قرىہ قرىہ پاکستان کا مطلب کىا لا الہ الا اللہ! کے نعروں سے گونچتے رہتے تھے؟ کىا ىہى وہ سرزمىن ہے جس کے لىے اس کا پورا خاندان کٹ گىا اور جب اس نے آخرى بار مڑ کر اپنے باپ اور تاىا کى لاشوں کو دىکھا تھا تو ان کى ادھ کھلى آنکھوں مىں ’’پاکستان‘‘ صاف لکھا نظر آتا تھا۔
سلىم کے گھر والے اسے ىوں اچانک دىکھ کر پہلے تو حىران رہ گئے پھر نہاىت خوشدلى سے انہوں نے اس کا حال چال پوچھا۔ تھوڑى دىربعد ہى گرما گرم کھانا آگىا۔
ابھى وہ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تھے کہ سلىم کا اىک ملازم کمرے مىں داخل ہوا ۔ وہ پرىشان لگ رہا تھا۔ سلىم نے بہت پىار سے اس کى پرىشان کى وجہ پوچھى ۔
’’مىرى چھوٹى بىٹى بىمار ہے۔ دو دن سے ہسپتال مىں ہے۔ خرچہ اتنا زىادہ ہو گىا ہے کہ ۔‘‘ ىہ سنتے سلىم ىکدم کھڑا ہو گىا۔ ’’کىا ! آپ نے مجھے کىوں نہىں بتاىا۔ آئىں مىرے ساتھ۔ ‘‘ بعد مىں سلىم کے بىٹے نے بتاىا کہ بابا جان نے چاچا سلطان اور ان کى بىٹى کو اپنى گاڑى مىں اىک دوسرے اور بہترىن ہسپتال مىں اىڈمٹ کروا دىا ہے اورسارے واجبات بھى خود ادا کىے ہىں۔
شام کو عبداللہ نے دىکھا مغرب کى اذان ہو رہى تھى اور سلىم اور اس کے دونوں بىٹے سب کام چھوڑ کر نماز کى تىارى کرنے لگے تھے۔ مسجد مىں کئى لوگوں نے اس کا تعاف پوچھا تو اس نے بتاىا کہ سلىم اس کا پوتا ہے۔ ىہ سنتے ہى لوگوں کى نظر مىں اس کے لىے احترام اور محبت نظر آنے لگتى۔
’’سلىم صاحب تو جى اس محلے کے لىے بہت بڑى نعمت ہىں۔ ىہ جو عشاء کے وقت بھى آپ کو مسجد کا سارا راستہ جگمگاتا ہوا دکھائى دے رہا ہے ىہ سلىم صاحب کى کوششوں سے ہى تو ہوا ہے۔ سٹرىٹ لائٹس اىک عرصے سے خراب پڑى تھىں۔ سلىم صاحب نے کوششىں کر کے ٹھىک کروائىں جس سے سبھى کو بے حد آسانى ہے۔‘‘
’’اجى سلىم صاحب نے آج چودہ اگست کى خوشى مىں برىانى کى دىگ پکائى ہے اور محلے کے تمام غرىبوں مىں تقسىم کى ہے۔‘‘
’’مىں سلىم کو اىک عرصے سے جانتا ہوں۔ اىک دفعہ کاروبار مىں ان کو بہت بڑا نقصان ہو رہا تھا۔ سلىم چاہتا تو اىک چھوٹا سا جھوٹ بول کرنقصان سے بچ جاتا لىکن اس نے اتنا بڑا نقصان برداشت کر لىا اور جھوٹ بولنا گوارا نہىں کىا۔‘‘
’’اچھا! آپ سلىم صاحب کے رشتہ دار ہىں۔ بھئى تو آپ تو بہت ہى خوش نصىب ہىں۔ماشاء اللہ بڑے ہى دىندار ہىں۔ ہر مہىنے اپنے گھر مىں کسى عالمِ دىن کا بىان رکھواتے ہىں۔‘‘
’’بس جى! اب اىسے لوگ کہاں دىکھنے کو ملتے ہىں۔ سلىم صاحب کے اىک دورپار کے غرىب رشتہ دار تھے۔ جب تک فوت نہىں ہو گئے سلىم صاحب ان کا علاج کرواتے رہے اور اب بھى ہر مہىنے باقاعدگى سے ان کے گھر راشن، کپڑے کھانا وغىرہ ہر موقع پر بھجواتے رہتے ہىں۔‘‘
عبداللہ سنتا رہا۔ اس کو جو اىک بے چىنى نے گھىرے رکھا تھا وہ ىکدم ختم سى ہو گئى ۔ اسے فخر سا محسوس ہونے لگا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کىا جس نے اس کى اگلى نسل کو وطن اور وطن کے لوگوں کى محبت سے نواز ا تھا۔
اس کو محسوس ہونے لگا مہاجرىن کى قربانىاں رائىگاں نہىں گئى تھىں۔ کىاہوا جو جھوٹ اور رشوت کے کانٹوں نے وطن کو بدنما کر دىا تھا، کىا ہوا جو غربت و افلاس نے وطن مىں گھر کر رکھا تھا ۔
کىا ہوا جو دہشت گردى نے ملک کو اپنى لپىٹ مىں لے لىا تھا۔ جب تک سلىم جىسے لوگ اس وطن مىں موجود ہىں،ماىوسى اور بدگمانى کى راتوں مىں امىد کا چاند جگمگاتا رہے گا۔
مرے، حالات کے مارے ہوئے لوگو!
وطن مىں چار سو پھىلى
فضائے بدگمانى،غربت و افلاس
بد امنى سے تم نومىد مت ہونا
ىہ جو قلب و نظر مىں ٹوٹتى امىد کے لرزاں دىے
آلام کے طوفاں کى زد مىں ہىں
انہىں بجھنے نہ تم دىنا
وہى ارضِ وطن ہے ىہ۔۔۔ ۔!
جہاں پرکھوں نے خود اپنے لہو سے۔۔
فکرِ نو کے نام اک تحرىر لکھى تھى۔۔
نئى آزاد صبحوں کى حسىں تقدىر لکھى تھى!
فضاؤں مىں ابھى بھى ان پرستارانِ حر کے نعرۂ تکبىر
کى تاثىر باقى ہے
مگر اک خواب جو دىکھا کئى بے چىن آنکھوں نے
ابھى اس خواب کى تعبىر ادھورى ہے
اسى تعبىر کى تکمىل باقى ہے!
ىہ دھرتى پھر ہمىں آواز دىتى ہے!
ہمىں اس گھر کى دىواروں کو ىوں مسمار ہونے سے بچانا ہے
کہ خشتِ عزم سے اس کى فصىلوں کى
نئى تعمىر باقى ہے
مىرے پرچم کى پىشانى پہ اب بھى
بخت کا تارادمکتا ہے
ہمىں اسکو کبھى بھى سرنگوں ہونے نہىں دىنا
مرے لوگو! کبھى نومىد مت ہونا
مصائب کى شبِ تارىک سے اک دن
کبھى تو صبحِ نو کا،آس کا سورج نکلنا ہے
کبھى تو وقت کى بےرحم موجوں کا
ہمىں دھارا بدلنا ہے
تبھى تعمىرِ ملک و قوم کے اس خواب کو
تعبىر کا اعزاز ملنا ہے!


 {rsform 7}

.