Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


چالاک ہرن نہ صرف اپنی پھرتی اورتیزی کی وجہ سے جنگل میں مشہور تھا بلکہ اپنے نام کی طرح بے حد چالاک بھی تھا۔ ایک دن وہ جنگل میں مزیدار پھلوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کے لےے گھوم رہا تھا۔ اگر چہ وہ بہت چھوٹا تھا مگر وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا کہ بہت سے بڑے بڑے جانور اسے اپنی خوراک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لےے انہیں چالاک ہرن کو پکڑنا ہوگا جو قطعی نا ممکن تھا۔
اچانک چالاک ہرن کو کسی کے دہاڑنے کی آواز آئی۔ وہ یقینا ایک چیتا تھا۔
چالاک ہرن کیسے ہو تم؟ میں بہت بھوکا ہوں۔ میرے لےے کچھ کرو۔ دیکھو اگر تم چاہو تو میرے دو پہر کا کھانا بن سکتے ہو۔ لیکن چالاک ہرن بالکل چیتے کا کھانا نہیں بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور اپنے ذہن سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ اس نے ایک کیچڑ کا ڈھیر پڑا دیکھا۔
” لیکن چیتے میں تمہارے لےے کچھ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ آج بادشاہ کا کھاناہے اور اس کی حفاظت کررہا ہوں۔“
” یہ کیچڑ۔“ چیتے نے حیرانی سے کہا۔

بچو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔ چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔
چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:

 

 

 

 

 

”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو۔ میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔میں بلی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آازدی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔ ایک دفعہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے سے ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ اس پہاڑ میں سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر سر جھٹکا مگر چونچ پر پڑا وزن کم نہ ہو سکا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ ا ے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں ؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔

اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ چڑیا بھولی بھالی ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے۔

دو بہت ہی بیمار آدمی اسپتال کے ایک ہی کمرے میں زیر علاج تھے۔ وہ دونوں اس قدر علیل تھے کہ بستر سے اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ صرف ایک شخص کو ایک گھنٹے کے لئے اپنے بستر سے اٹھ کر بیٹھنے کی اجازت تھی اور اس شخص کا بستر ان کے کمرے کی واحد کھڑکی عین سامنے تھا جبکہ دوسرا شخص اپنے بستر سے بالکل بھی اٹھ نہیں سکتا تھا وہ چوبیس گھنٹے اسی بستر پر لیٹا رہتا۔
وہ دنوں ایک دوسرے سے زندگی کے گزرے لمحات اپنے خاندان اور ملازمت کی باتیں کرتے رہتے اور اپنے احساسات ایک دوسرے سے بانٹتے رہتے ۔ روزانہ جب وہ پہر کے بعد کھڑکی کے سامنے والے آدمی کے اٹھ کر بیٹھنے کا وقت ہوتا تو وہ اس ایک گھنٹے میں اپنے ساتھی کو کھڑکی کے باہر کے تمام مناظر بتایا کرتا تھا ۔ دوسرا آدمی اپنی اس دن کی زندگی اسی ایک گھنٹے میں جی لیتا تھا جب ا س کی بے رنگ زندگی میں باہر کی دنیا کے رنگ شامل ہو جاتے تھے۔

ایک نوجوان کی ماں سخت بیمار اور ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں داخل تھی۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھاکہ برخوردار زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر ہم اب مایوس ہو چکے ہیں۔ تم کسی بھی لمحہ کوئی بری خبر سننے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا۔

 رات گھر گزارنے کے صبح ماں سے ملاقات کیلئے ہسپتال جاتے ہوئے نوجوان راستے میں ایک پیٹرول پمپ پر رکا۔ پٹرول بھروانے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اس کی نظر سروس شاپ کی دیوار کے پاس پڑی جہاں ایک بلی نے خالی ڈبے کےنیچے بچے دےرکھے تھے۔

بہت پہلے جب ہر جگہ بادشاہ ہی حکومت کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے ایک ملازم سردار سے ناراض ہوگیا اور اُسے دربار سے نکال دیا اور حکم دیا گیاکہ تم دن رات اپنے گھر میں پڑے رہو نہ کہیں باہر جاسکتے ہو اور نہ ہی کہیں کام کرسکتے ہو۔ یہ بظاہر معمولی حکم تھا کیونکہ دن رات گھر میں پڑے رہنا کچھ کام کاج نہ کرنا اور فارغ وقت گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایک آدمی ایک ہی جگہ اور ایک قسم کے لوگوں میں رہتے رہتے گھبرا جاتا ہے اور تو اور بہت وحشت ہوتی ہے۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوجاتا ہے چنانچہ اُسکے ساتھ بھی ایسی ہی ہوا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام نہیں کرسکتا تھا۔ سردار بہت پریشان تھا کیونکہ اسکے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔
"کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔"
چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔
کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔