Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


ایک بار ایک ہاتھی جنگل میں گھومنے کے لیے نکلا ۔ ہاتھی بہت ہی زیادہ رحم دل اور اچھی عادتوں والا تھا۔ وہ ہاتھی اپنی دُم ہلاتا ، آنکھیں مٹکاتا، جھومتا ، گاتا چلا جارہاتھا۔
جب وہ ندی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ چوہے کا ایک چھوٹا سا بچّہ پانی میں ڈوبا جارہا ہے۔ وہ بچّہ زور زور سے بچاؤ بچاؤ بھی چلاتے جارہاتھا۔ ہاتھی کو اس پر رحم آگیا وہ فوراً پانی میں اترا اور چوہے کے بچّے کواپنی سونڈ میں اٹھاکر باہر نکال لایااور وہاں سے چلنے لگا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لیے ایک رستے سے گذر رہی تهی کہ اچانک اس کی نظر شہد کے ایک چهتے پر پڑی۔ شہد کی خوشبو سے اس کے منہ میں پانی بهر آیا۔ چهتّا ایک پتهر کے اوپر لگا تها۔ چیونٹی نے ہر چند کوشش کی کہ وه پتهر کی دیوار سے اوپر چڑھ کر چهتے تک رسائی حاصل کرے مگر ناکام رہی کیوں کہ اس کے پاؤں پهسل پهسل جاتے تهے اور وه گر گر پڑتی تهی۔

شہد کے لالچ نے اسے آواز لگانے پر مجبور کر دیا اور وه فریاد کرنے لگی: " اے لوگو، مجهے شہد کی طلب ہے۔ اگر کوئی جواں مرد مجهے  شہد کے چهتے تک پهنچا دے تو میں اسے معاوضہ طور پر ایک جو پیش کروں گی۔"

 arrownew e0ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک کا باشاہ بہت ظالم تھا۔ہر وقت عجیب و غریب فرمائشیں کرتا رہتا تھا۔اس کی عوام اور خاص طور پر اسکا وزیر اس سے بہت تنگ تھا ۔وزیر ایک نیک دل اور عقلمند انسان تھا جس کی وجہ سے ملک کے حالات کافی بہتر تھے۔

ایک دن باشاہ کو ایک عجیب و غریب خواہش سوجھی۔اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ مجھے ایک ایسا محل بنا کر دو جس کی تعمیر اوپر سے نیچے کی طرف کی جائے اور اگر وزیر دس دن کے اندر یہ کام شروع نہ کر سکے تو اس کا سر قلم کر  دیا جائے۔وزیر بیچارا بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کرے۔

 arrownew e0ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پرجانا پڑا توایک نئے استاد کواس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی۔نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد، ایک طالب علم سے سوال پوچھا تواس طالب علم کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی، مگراس نے ایک بات ضرورمحسوس کر لی کہ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔طلباء کی نظروں، حرکات اور رویئے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پا لیا کہ یہ والا طالب ان کی نظروں میں نکما،  احمق، پاگل اورغبی ہے، ہنسی انہیں اس بات پرآئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کسی پاگل سے ہی پوچھا۔جیسے ہی چھٹی ہوئی، سارے طلباء باہر جانے لگے تو استاد نے کسی طرح موقع پا کراس طالب کو علیحدگی میں روک لیا۔ 

آپ نے ملا نصر الدین کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ شخص ترکی کا ایک مسخرہ تھا جس طرح ہمارے ہاں ملا دو پیازہ اور شیخ چلی کے لطیفے مشہور ہیں، اسی طرح ترکی میں ملا نصر الدین کے لطیفے بڑے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ملا نصر الدین یوں تو نہایت عقل مند اور عالم فاضل شخص تھا مگر لوگوں کی اصلاح اور تفریح کے لیے بے وقوف بنا رہتا اور ایسی ایسی حرکتیں کرتا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔

ملا نصر الدین کے پڑوس میں ایک مال دار یہودی رہتا تھا جو اتنا کنجوس تھا کہ کبھی کسی غریب اور محتاج کو ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔ ملا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے ، اسے غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، لیکن اس نے ملا کی کوئی نصیحت نہ سنی۔ آخر ملا نصر الدین نے اسے سزا دینے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔

  ایک لڑکا جب تیرہ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بلایا اور ایک پتہ ہاتھ میں پکڑا کر بولا کہ جاؤ ادھر ایک بہت دانا آدمی رہتا ہے۔ اس کی حکمت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے پاس جا کر اس سے یہ سیکھو کہ خوشی کیا ہے اور کیسے اسے پایا جا سکتا ہے۔ وہ لڑکا پتے کو سمجھنا شروع ہوا۔ وہ کسی صحرا میں ایک محل کا پتہ تھا۔ لڑکا نکل کھڑا ہوا۔ وہ چالیس دن مسلسل صحرا میں سفر کرتا رہا۔ آخر کار وہ اس پتے پر پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا تو سامنے ایک بہت عالی شان، وسیع و عریض محل بنا ہوا تھا۔ وہ محل کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ارد گرد جوق در جوق لوگ جمع تھے۔ اس نے بالکل بھی یہ سب تصور نہیں کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اندر مکمل سناٹا ہو گا اور کوئی بوڑھا سا دانا بابا بیٹھا ہو گا جو اسے حکمت کی دو چار باتیں بتا کر چلتا کرے گا۔ ادھر تو ماحول ہی الگ تھا۔ اتنے ڈھیر سارے لوگ اور میزوں پر تھال کے تھال بھرے پڑے تھے۔ اتنے لذیذ اور طرح طرح کے کھانے سجے تھے۔ اتنے میں وہ دانا آدمی آیا اور اس کو مخاطب کیا کہ تم ادھر نئے آئے ہو، کیا چاہیے ؟ لڑکے نے ساری کہانی سنا دی کہ میرے باپ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں خوشی کا مفہوم سیکھ کر واپس جاؤں۔

ایک روز شیخ شفیق بلخی رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا۔

’’حاتم ! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو؟‘‘

انہوں نے کہا۔’’بتیس برس سے۔ ‘‘

شیخ نے پوچھا۔ "بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا؟"

حاتم نے کہا ۔"صرف آٹھ مسئلے!"

شیخ نے کہا۔ "انا للہ وانا الیہ راجعون میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے تُو نے صرف آٹھ مسئلےسیکھے؟"

حاتم نے کہا ۔"استادِ محترم ! زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا۔"