Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درویش ایک جنگل میں سفر کررہا تھا اس نے ایک لنگڑی لومڑی کودیکھا جوبے بسی کی چلتی پھرتی تصور تھی۔ اس درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کاانتظام کیسے ہوتا ہوگا جبکہ یہ شکار کرنے کے بھی قابل نہیں ہے؟
درویش ابھی یہ بات سوچ رہاتھاکہ اس نے ایک شیر کودیکھا جومنہ میں گیڈر دبائے اس لومڑی کے نزدیک آیا۔ اس نے گیڈر کے گوشت کاکچھ حصہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کرچلا گیا۔ لومڑی نے اس باقی کے گوشت میں سے کھایا اور اپنا پیٹ بھرا۔
درویش نے جب سارا ماجرادیکھا توا سے اتفاق قرار دیا اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا۔ اگلے روز بھی وہی شیر منہ میں گیڈر دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی ویسے ہی چھوڑ دیا۔ لومڑی نے وہ باقی گوشت کھالیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق پہنچانے کاانتظام اللہ کی طرف سے ہے۔ اس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ میں بھی اب اپنے رزق کے لئے کوئی جستجو نہیں کروں گا اور میرا رزق اللہ عزوکل مجھے خود پہنچادے گا جس طرح لنگڑی لومڑی کو شیرے کے ذریعے رزق پہنچارہا ہے۔

ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ کے دِل میں یہ خیال آیا کہ کتنا اچھا ہو اگر مجھے یہ معلوم ہو جایا کرے کہ :

۱۔ صحیح کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے ؟

۲۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے سخت ضرورت ہے ؟

۳۔ اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے ؟

دل میں خیال آتے ہی بادشاہ نے اپنی پوری سلطنت میں اعلان کرا دیا کہ جو شخص بادشاہ کے ان تین سوالوں کے مطمئن کر دینے والے جواب دے گا، اس کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔

 ایک شخص نے چڑیا پکڑنے کےلئے جال بچھایا۔ اتفاق سےایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑ لیا۔

چڑیا نے اس سے کہا۔ ” اے انسان ! تم نے کئی ہرن ‘ بکرے اور مرغ وغیرہ کھائے ہیں۔ ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ہے۔ ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے اس سے تمہارا کیا بنے گا۔؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا۔ لیکن اگر تم مجھے آزاد کردو تو میں تمہیں تین نصیحتیں کروں گی جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا۔ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی کروں گی۔ جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوار سے اڑکرسامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھوں گی۔‘‘
اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے ۔ اس نے چڑیا کی بات مانتے ہوئے اس سے کہا۔ ” تم مجھے پہلی نصیحت کرو  پھر میں تمہیں چھوڑ دونگا۔‘‘

 اس رات غالباً دو بجے کا عمل ہو چلا تھا اور میں نیم نیند کے عالم میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ اگر عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ کبھی نہ بتاتا کہ کروٹیں بدلتے رہنے کی ایک سنگین وجہ بجلی کی عدم موجودگی تھی، جبکہ باہر موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ اچانک دروازے پر زوردار دستک ہوئی اور میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ مجھے سو فیصد شک تھا کہ کسی نے میرے ہی دروازے پر دستک دی ہے۔

اس موسلا دھار بارش میں کون آٹپکا؟ بہرحال جبکہ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ اور پیر کو پیر سجھائی نہ دیتا تھا، کسی طرح اپنے اندازوں اور مفروضوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دروازے تک گیا۔ دروازے میں بنائے گئے ایک ایمرجنسی سوراخ سے باہر دیکھنے کی کوشش کی اور آنے والے کا چہرہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا، بلکہ یوں کہیے کہ دم نکلتے نکلتے رہ گیا۔ یہ عزت مآب محترم و مکرم، معزز مہمانِ گرامی جناب دلشاد خانپوری صاحب تھے۔ یہ خود اپنے آپ کو ملک کے چوٹی کے ادیبوں میں شمار کرواتے ہیں۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں، مگر شائع کوئی بھی نہ ہوئی۔

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد سہیل   :  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :   سہیل بھائی آپ کے  علم میں ہے  کہ ہمارے  یہاں سے  ایک دعوتی میگزین ارمغان کے  نام سے  نکلتی ہے  اس میں اسلام قبول کرنے  والے  خوش قسمت بھائی اور بہنوں کی آپ بیتی انٹر ویو کے  ذریعہ شائع کی جاتی ہے، ابی کا حکم ہے  کہ میں آپ سے  اس کے  لئے  ایک انٹرویو لوں، اس لئے  آپ کو اندر بلایا ہے۔

جواب  :  بھائی احمد ضرور، میری خود بڑی خواہش ہے  کہ مجھ گندے  پر اللہ کے  کرم کی کہانی لوگ پڑھیں، تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو۔

سوال  :   آپ اپنا خاندانی پریچے  (تعارف) کرائیں ؟

آپ سب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ابا جان ہمیں سیر کے لیے کسی اچھے سے تفریحی مقام پر لے جانے کے لیے راضی ہوگئے ہیں اس لیے فوری طور پر تیاری کرلی جائے۔ ہانیہ نے اپنا چھوٹا سا دوپٹا ہوا میں لہرایا۔ خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

کیا تم نے ابا جان کے منہ سے خود سنا ہے یا سنی سنائی بات پھیلانے لگی ہو۔ وقاض نے پرتجسس لہجے میں پوچھا۔
نہیں یقین تو نہ کرو، اریشہ، عروج، ثمن سب نے ہی سنا ہے اور خوب سنا ہے کہ ابا جان کچھ دیر بعد ہم سب کو سیر کے لیے بہت اچھے سے تفریحی پارک لے جائیں گے اور واپسی پر مزیدار آئسکریم سے ہم سب کی تواضع ہوگی۔ ہانیہ نے مزید تفصیلات بتائیں۔
ہزار کا نوٹ تو آئسکریم پر ہی نکل جائے گا پھر پارک کے ٹکٹ، جھولوں کے کرائے اور سب سے بڑھ کر پیٹرول۔ بھائی جان نے ہمیشہ کی طرح پیسوں کا حساب کتاب کیا۔ یہ ان کی پرانی عادت تھی۔ ریڑھی والے سے فالسے بھی لے لیں تو حساب کتاب کرنے بیٹھ جاتے، غرض کہ وہ اب تک فلسفیانہ انداز میں گم تھے اور ہانیہ پورے گھر میں شور مچاتی پھر رہی تھی، کچھ ہی دیر بعد چکن کڑاہی، روغنی پراٹھے اور فروٹ کی مہک سے سارے گھر میں ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔

 حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درویش ایک جنگل میں سفر کررہا تھا اس نے ایک لنگڑی لومڑی کودیکھا جوبے بسی کی چلتی پھرتی تصور تھی۔ اس درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کاانتظام کیسے ہوتا ہوگا جبکہ یہ شکار کرنے کے بھی قابل نہیں ہے؟

درویش ابھی یہ بات سوچ رہاتھاکہ اس نے ایک شیر کودیکھا جومنہ میں گیڈر دبائے اس لومڑی کے نزدیک آیا۔ اس نے گیڈر کے گوشت کاکچھ حصہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کرچلا گیا۔ لومڑی نے اس باقی کے گوشت میں سے کھایا اور اپنا پیٹ بھرا۔ 
درویش نے جب سارا ماجرادیکھا توا سے اتفاق قرار دیا اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا۔ اگلے روز بھی وہی شیر منہ میں گیڈر دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی ویسے ہی چھوڑ دیا۔ لومڑی نے وہ باقی گوشت کھالیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق پہنچانے کاانتظام اللہ کی طرف سے ہے۔