زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں اس Category میں پیشِ خدمت ہیں۔
- تفصیلات
- Written by: ماخوذ
میرے قریبی دوست اور رشتہ دار جانتے ہیں کہ میں ایک اچھا باورچی ہوں لیکن میں نے کبھی اس بات پر غرور نہیں کیا۔ میں خود کو شیف بھی کہہ سکتا تھا کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ماڈرن لفظ زیادہ معزز لگتا ہے لیکن سچ بات ہے شیف کے لفظ میں مجھے ایک خاص قسم کی چالاکی اور پیشہ ورانہ تفاخر محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے میں دیسی لفظ باورچی کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔ ہمارے اسی معاشرے میں جب دولت کی ریل پیل نہیں ہوئی تھی اور دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہوئی تھی تو خاندانی باورچی شادی بیاہ کے موقع پر بلائے جاتے تھے۔ یہ لاکھوں روپے کی کیٹرنگ نہیں ہوتی تھی نہ ہی یہ اسٹیٹس سمبل بنا تھا کہ شادیوں پر چار چار دن انواع و اقسام کے کھانوں کے سلسلے چلتے رہیں۔
خاندانی باورچی ہر شادی کے موقع پر مرکزی کردار ہوتا تھا. بڑے وقار سے بلایا جاتا تھا اور اسے کرسی دی جاتی تھی۔ پھر وہ صاحب تقریب سے مذاکرات کرتا تھا اور ہر قسم کے بجٹ کے مطابق دیانتداری سے صحیح مشورہ دیتا تھا۔ مجھے یاد ہے میرے ایک دوست کی بہن کی شادی میں دولہا والے بغیر بتائے زیادہ تعداد میں باراتی لے کر آ گئے۔ میرا دوست بہت پریشان ہوا اور اس نے خاندانی باورچی کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
- تفصیلات
- Written by: فرخ شہباز وڑائچ
میں ایک صاف ستھرے گھر میں رہتا تھا۔ میرا مالک بہت خوش اخلاق انسان تھا۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا ۔ہر وقت میرا خیال رکھتا تھا۔ ابھی میں چھوٹا ساہی تھا جب میرے مالک نے میری دیکھ بھال شروع کی، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا، مجھے وقت پر کھانا دیتا اور کبھی بلاوجہ مجھے نہیں ڈانتا تھا۔
میرے مالک کے دو چھوٹے بچے بھی تھے وہ بھی مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے، پیار سے میری پیٹھ سہلاتے تو میں خوشی سے نہال ہوجاتا تھا۔ میں صبح سویرے خود ہی سیر کو نکل جاتا تھا۔ اور کچھ ہی دور رہنے والے اپنے دوستوں سے مل لیتا تھا۔ انہیں اپنے مالک کی باتیں سناتا تھا، اور پھر مقررہ وقت پر واپس آکر کھانا کھاتا تھا۔ اور دن بھر اپنے مالک کے گھر اور کبھی گھر سے باہر گھومتا رہتا تھا۔ ہرے بھرے پتے اور نرم گھاس کھا کر میں کافی صحت مند ہوگیا تھا۔ میرے مالک کے دونوں بچوں کا مجھ سے پیار بہت عجیب تھا۔ وہ اپنی زبان میں نہ جانے مجھے کیا کچھ سناتے رہتے اور میں چپ چاپ بس انہیں دیکھتا رہتا۔ وہ کبھی کبھی گھنٹوں میرے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ اور اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کبھی میری گردن کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے اور سبھی میرے لمبے لمبے کانوں کو ہاتھ لگا کر خوش ہوتے تھے۔
- تفصیلات
- Written by: شیخ سعدی کی حکایات سے ماخوذ
ایک بار کوئی بادشاہ اپنے نئے جاہل غلام کے ساتھ کشتی میں بیٹھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔
اسے نرمی کے ساتھ سمجھایا گیا اور ہر طرح اطمینان دلایا گیا لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت مکدّر ہوگئی اور سیروتفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کس طرح خاموش کریں۔
اس کشتی میں ایک عقل مند آدمی بیٹھا تھا اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اس کو چپ کرادوں۔
بادشاہ نے جواب دیا۔ آپ کی بہت مہربانی اور احسان ہوگا۔
- تفصیلات
- Written by: شیخ سعدی کی حکایات سے ماخوذ
ایک پہلوان کشتی لڑنے کے فن میں بہت زیادہ ہوشیار تھا۔ وہ کشتی کے تین سو ساٹھ داؤں جانتا تھا۔ ہر روز ایک داؤں سے کشتی لڑتا تھا۔ وہ اپنے ایک شاگرد پر بہت مہربان تھا۔ اس کو تین سو انسٹھ داؤں سکھا دیے۔ صرف ایک داؤں نہیں سکھایا اور اس کے سکھانے میں ٹال مٹول کرتا رہا۔ اس کا شاگرد کشتی لڑنے میں بہت ماہر ہوگیا۔ ہر طرف اس کی شہرت پھیل گئی۔ کوئی پہلوان اس سے مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں نہیں آتا تھا۔ اس ملک کے بادشاہ کے سامنے پہلوان کے شاگرد نے کہہ دیا کہ استاد مجھ سے بڑے ہیں اس لیے ان کی عزت کرتا ہوں، ورنہ طاقت اور داؤں پیچ میں مجھ سے زیادہ قابل نہیں ہیں۔
- تفصیلات
- Written by: ماخوذ
ملا نصر الدین کے پڑوس میں ایک مال دار یہودی رہتا تھا جو اتنا کنجوس تھا کہ کبھی کسی غریب اور محتاج کو ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔ ملا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے ، اسے غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، لیکن اس نے ملا کی کوئی نصیحت نہ سنی۔ آخر ملا نصر الدین نے اسے سزا دینے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔
ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا۔
یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔ لیکن اگر اس میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو ہرگز قبول نہ کروں گا۔
یہودی نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملا بڑا ایمان دار بنتا ہے ، اس کی ایمانداری آزمانی چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھریں اور عین اس وقت جب کہ ملا نصر الدین دعا مانگ رہا تھا، اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔
- تفصیلات
- Written by: ماخوذ
’’اوئے چھوٹے جلدی ہاتھ چلا، دیکھ نہیں رہا آج رش بہت زیادہ ہے اور بقیہ بھی کام ایسے مر مر کر کررہا ہے۔‘‘
نگران نے برتن دھونے والی جگہ کا معائنہ کیا تو وہاں ساجد دھیرے دھیرے برتن مانجھنے میں مصروف تھا۔ آج رش بھی زیادہ تھا اس لیے نگران کو اس کی سستی پر خوب غصہ چڑھا اور زبردست ڈانٹ پلادی۔
بارہ سالہ ساجد اس کی دھاڑ سن کر اندر تک کانپ اٹھا اور تیز تیز ہاتھ چلانےلگا۔ نگران جسے اس کام پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ اس ہوٹل پر کام کرنے والے افراد کی نگرانی کرے کہ کوئی اپنے کام میں کوتاہی تو نہیں برت رہا ہے۔ ساجد نے برتن دھو کر سوکھا کپڑا بھی ماردیا تو نگران نے اسے میزیں اور کرسیوں کی صفائی کا حکم صادر فرمایا۔ ایک بج چکا تھا ہوٹل پر رش میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اسے بھوک بھی ستارہی تھی۔ بارہ بجے سے ہی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے شروع ہوچکے تھے جب کہ کھانا تین بجے ملنا تھا مجبوراً اپنے ناتواں جسم کو اٹھاتا ہوا میزیں اور کرسیوں کی صفائی میں لگ گیا۔ وہ ابھی چھوٹا سا تھا کہ جب اس کے والد کینسر کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ علاج کے حوالے سے قرض بھی خاصا بڑھ چکا تھا۔ رشتہ داروں نے تو فوراً آنکھیں پھیر لیں۔ زاہدہ نے گھر کو سنبھالا دیا اور بچے کی پڑھائی کو جاری رہنے دیا۔ مگر اچانک لوگوں کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے تقاضے نے ساجد کی ماں کو پریشان کردیا۔
- تفصیلات
- Written by: جدون ادیب
یار اورنگزیب ایک بات پوچھوں سچ سچ بتاﺅ گے۔ مشتاق نے اپنے بے تکلف دوست سے پوچھا۔
اورنگزیب نے حیرت سے مشتاق کو دیکھا اوربولا۔
اب مجھ سے اجازت لیا کرو گے بات پوچھنے کی بھی۔
یار وہ بات ہی ایسی ہے مجھے ڈر ہے کہیں تم ناراض نہ ہوجاﺅ۔ مشتاق نے جھجک کر کہا۔ اللہ کے بندے اب کہہ بھی ڈالو۔ اورنگزیب جھلا گیا۔
کل بھی میں نے تمہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر تم رو رو کر دعا بھی مانگ رہے تھے میں حیران ہوں کہ تم نے کب سے نماز شروع کردی اور پھر یہ رو رو کر نماز پڑھنا میری سمجھ میں نہیں آیا، دعا تو ہر نمازی مانگتا ہے مگر میں نے کسی کو روتے ہوئے دعا مانگتے نہیں دیکھا۔ مشتاق کہتا چلا گیا۔
اورنگزیب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اس نے پیار بھری نظروں سے مشتاق کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا۔ میں نے چند دن قبل سے باقاعدہ نماز پڑھنی شروع کردی تھی، ایک دن اتفاق سے میرے سر میں درد تھا اور میں لیٹا ہوا تھا بس سوچتے سوچتے میں اپنی سابقہ زندگی کا سدباب کر بیٹھا تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں نے تو آخرت کے لیے کچھ بھی نہیں کمایا سوائے گناہوں کے، مجھے یہ احساس ہوا کہ ہر آدمی صبح اٹھ کر کسی نہ کسی صورت میں روزگار کے لیے نکلتا ہے اسی طرح ہم بھی دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں، بس یہ وہی لمحہ تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق گزاروں گا۔ اورنگزیب چپ ہوگیا مشتاق بہت متاثر نظر آرہا تھا۔
صفحہ 6 کا 12