Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


  کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔

"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔

  ایک چوہا تھا۔اُس کا نام جینو تھا۔ وہ بہت ہی لالچی ، کاہل اور سُست تھا۔ کاہل چوہا بہت زیادہ پیٹّو بھی تھا۔ اس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا تھا۔

ایک دن کی بات ہے جینو کی ماں نے کہا کہ :’’بیٹا! تم بہت زیادہ کھاتے ہو ، لیکن کام کاج سے جی چراتے ہو ، تم اپنے حصے کے علاوہ میرے اور تمہارے پاپا کا کھانا بھی چٹ کر جاتے ہو، یہ اچھی بات نہیں ہے آج سے تم اپنا کھانا خود تلاش کروگے ۔ ہاں! ایک بات یاد رکھنا لالچ مت کرنا، زیادہ کھانے کے چکر میں کبھی کسی مصیبت میں مت پڑ جانا، اپنا دھیان رکھنا ۔‘‘
جینو بہت اُداس ہوگیا ۔ مگر اسے جانا ہی پڑا ۔ وہ کھانے کی تلاش میں نکل گیا ، ابھی وہ کچھ ہی دور گیاتھا کہ اُسے راستے میں ایک گیہوں کا دانا مِلا۔ وہ خوش ہو گیا۔ اس نے گیہوں کا دانا اٹھا لیا ۔ تب ہی اس کی نظر خرگوش پر پڑی ، خرگوش اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔
’’تم مجھے دیکھ کر کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ جینو نے خرگوش سے پوچھا۔

’’مَیں تو تمہاری بے وقوفی پر ہنس رہا ہوں ، ارے! ایک کسان کی بیل گاڑی یہاں سے گذری ہے ۔ تھوڑا اور آگے جاؤ تمہیں گیہوں کی بالی مل جائے گی۔
‘‘

 نازک صحب ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ نام تو ان کا اللہ جانے کیا تھا لیکن اپنی حرکتوں اور حلیے کی وجہ سے سارے محلے میں نازک صاحب کے نام سے مشہور تھے۔

دبلے پتلے دھان پان آدمی تھے۔ پھونک مارو تو اڑ جائیں۔ ذرا سی بات پر بگڑ جاتے تھے۔ جب وہ کوٹ پتلون پہنے، باریک سنہری کمانی کا چشمہ لگائے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے میں بکرےے کی رسی تھامے محلے میں نکلتے تھے تو ان کی دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے راہ چلتے لوگ بھی رک کر انہیں دیکھنے لگتے تھے۔ کبھی چھوٹے چھوٹے پتھروں پر پائوں رکھنے سے انہیں موچ آجاتی اور کبھی اپنے بکرے کی مریل سی "میں ایں" سن کر ڈر جاتے۔ ان کا بکرا بھی خوب تھا۔ موٹا تازہ کالے رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ محلے میں نازک صاحب سےز یادہ ان کا بکرا مشہور تھا۔ نازک صاحب نے اسے بڑے پیار سے پالاتھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے بکرے کو ہاتھی بھی لگائے۔ وہ اکثر اپنے بکرے کی عظمت، ذہانت اور اس کے اعلیٰ خاندان کے قصے سنایا کرتے تھے۔

میرا ایک دوست اپنی پریشانی کی شکایت لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا میری آمدنی کم ہے اور بال بچّے بہت ہیں۔ مجھ میں فاقہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ کئی بار یہ سوچا کہ کسی دوسرے ملک میں چلا جاؤں تاکہ وہاں جس حال میں بھی گزر ہوگا کسی کو میرے بُرے بھلے کی خبر نہ ہوگی۔

بہت سے لوگ بھوکے سو جاتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا یہ کون ہیں۔ بہتوں کی جان پر بن آئی مگر کوئی ان کے حال پر رونے والا نہ ہوا۔

پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ دشمن میری ہنسی اڑائیں گے اور مجھے طعنہ دیں گے اور کہیں گے کہ اپنے بال بچّوں کو بے سروسامانی میں چھوڑ گیا۔ یہ بات کوئی نہ کہے گا کہ بال بچّوں ہی کے لیے محنت کرکے روپیہ کمانے گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں میں علم حساب جانتا ہوں اگر آپ کے ذریعہ کوئی ملازمت مل جائے تو مجھے اطمینان حاصل ہو۔ میں زندگی بھر آپ کا احسان مانوں گا۔ میں نے اس سے کہا۔ اے میرے دوست بادشاہ کی ملازمت دوزخ ہوتی ہے۔ ایک طرف روٹی ملنے کی امید ہے تو دوسرے طرف جان کا خطرہ۔ عقل مندوں کی رائے ہے کہ کسی امید پر جان کو خطرے میں ڈالنا عقل مندی نہیں ہے۔ یا تو پریشان حالی پر راضی ہو جاؤ یا پھر جان کو خطرے میں ڈالو۔

 کئی لوگوں نے اپنے بکرے گھر میں چھپا لیے۔ بڑی مشکل سے اسے قابو میں کرکے ایک کوٹھڑی میں بند کیا۔ اب محلے بھر میں اس کی دھاک بیٹھ چکی۔ لوگ اسے غنڈا بکرا کہنے لگے تھے۔ نازک صاحب نے جب اس بکرے کی شہرت سنی تو انہوں نے اپنے بکرے کو باہر نکالنا بند کردیا اور کہنے لگے "اپنے نامعقول بکرے کو باندھ کر رکھنا۔ اگر وہ دوسرے بکروں کے ساتھ گھلا ملا تو اس کی بری صحت میں پڑ کر سارے بکرے خراب ہوجائیں گے۔ بالکل اسی کی طرح سب بکرے شیطان ہوجائیں گے۔ اسی لیے میں نے اپنے بکرے کو باہر نکالنا بند کردیا ہے۔ ہاں میاں! تمہارا کیا ہے۔ تمہارا بکرا تو دو تین دن میں کٹ جائے گا لیکن میں نے اپنا بکرا بڑی محنت سے پالا ہے۔ اس کی تربیت کی ہے یہ کوئی کٹنے والا بکرا نیہں ہے۔ اس کا دادا جو تھا۔۔۔۔۔۔۔"۔

 

گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناءمیں مصروف تھے۔

درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔

Nanhy Bandr aur Zirafah

ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی ۔ اس ٹولی میں دو بچّے بھی تھے ، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی ان سے بہت زیادہ تنگ آگئے تھے۔

اسی جنگل میں ایک ننھا زرافہ بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اوربھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتّے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی ۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے زرافہ کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی ۔ کیوں کہ ان بندروں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔ 
بندر کے ایک بچّے نے کہا:’’ ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے ، آؤ اسے چھیڑتے اور ستاتے ہیں۔‘‘