Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


ایک طالب علم کو استاد نے امتحان میں فیل کردیا ۔ طالب علم شکایت لے کر پرنسپل کے پاس چلا گیا کہ مجھے غلط فیل کیا گیا ہے۔ پرنسپل نے استاد اور طالب علم دونوں کو بلا لیا اور استاد سے فیل کرنے کی وجہ پوچھی استاد صاحب نے بتایا کہ اس لڑکے کو فیل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ موضوع سے باہر نکل جاتا ہے جس موضوع پر اسے مضمون لکھنے کو دیا جائے اسے چھوڑ کر اپنی پسند کے مضمون پر چلا جاتا ہے۔

پرنسپل نے کوئی مثال پوچھی تو استاد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے اسے بہار پر مضمون لکھنے کو کہا تو وہ اس نے کچھ اس طرح لکھا ۔

شہر آنے سے پہلے ہم لوگ گاؤں چاند پور میں آباد تھے، جہاں سب لوگ پیار ومحبت سے رہتے تھے۔ گاؤں میں ایک بابا جی تھے، جن کی عمر اسی پچاسی سال کے درمیان ہوگی۔ جھکی ہوئی کمر، ہاتھ میں لاٹھی، آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک ، مگر ان کی ہمت جوانوں جیسی تھی۔ نام تو ان کا بشیر تھا۔ گاؤں میں بابا بیرو کے نام سے مشہور تھے۔ کہتے ہیں بابا بیرو کے والد نے پیدائش سے پہلے یہ منت مانی تھی کہ اگر ان کے ہاں لڑکا ہوا تو وہ ایک درخت لگائیں گے۔ چناں چہ بابابیرو کی پیدائش کے بد انھوں نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے گاؤں کے بڑے ٹیلے کے پاس ایک برگد کا درخت ہم عمر تھے۔ ٹیلے کے اوپر بابا بیرو کا کمرا اور اور گھر کے اطراف میں ایک باغیچہ تھا۔ بابابیرو کو پھولوں، پودوں،درختوں اور چڑیوں سے عشق تھا۔ پھول ان کی کم زوری تھے۔

ایک چونٹا بڑا محبتی اور شریف تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا۔ کبھی اپنے بل کی مرمت کررہا ہے تو کبھی مند میں اناج کادانہ اٹھائے چلاآرہا ہے۔ کاہلی کو گناہ سمجھتا اور ہرکام بڑی محبت سے کرتا تھا۔
وہ وقت کی بھی بڑی قدرکرتا تھا۔ کسی کام سے باہر نکلتا تو کسی سے بے مقصد بات نہ کرتا وہ جانتا تھا کہ عقل مند زیادہ نہیں بولتے۔ راستے میں اگر کوئی جان پہچان والا چونٹا مل گیا تو دور ہی سے سلام دعا کرلی اور اپنی راہ پکڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دردمنددل کا مالک بھی تھا۔ اگر راہ میں کوئی مصیبت زدہ مل جاتا تو اپنا کام چھوڑ کر اس کی مدد کرتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے بھی شفقت سے پیش آتا تھا۔

’’یار شارق…! تم نے تو آج کمال کردیا‘‘سعید نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’تینوں کا برابر حصہ ہوگا نا…؟‘‘ زبیر نے شارق سے پوچھا۔
’’ارے واہ…!!‘‘ شارق نے آنکھیں نکال کر کہا۔ ’’کیوں برابر برابر ہوگا؟‘‘ استاد صاحب کا بٹوہ میں نے اکیلے چرایا ہے… اس لیے اس پر پورا حق میرا ہے… البتہ تم دونوں چوں کہ میرے دوست ہو اس لیے تم کو سو سو روپے دے دوں گا‘‘
شارق کی اس بات پر دونوں کے منہ لٹک گئے، یہ تینوں اپنی کلاس کے سب سے شرارتی اور چور بچے تھے، آج شارق نے موقع پاکر چپکے سے اپنے استاد صاحب کا بٹوہ چرالیا تھا۔
استاد صاحب بہت زیادہ پریشان ہوگئے تھے ، ایک پریشانی بٹوہ گم ہونے کی اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ کلاس میں کوئی چور ہے اور تالاب کی ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے۔
خیر…استاد صاحب نے بجھے بجھے انداز میں کلاس کے طلبا سے کہا تھا کہ کل سب ’’قلم‘‘ پر مضمون بناکر لانا ، جس کا مضمون سب سے اچھا ہوگا اس کو انعام ملے گا‘‘
’’شارق…!‘‘ سعید کہنے لگا: ’’کیا تم مضمون لکھو گے؟‘‘

 ایک عقاب اور ایک الو میں دوستی ہو گئی۔ عقاب بولا ”بھائی الو اب تمہارے بچوں کو کبھی نہیں کھاوٴں گا۔ مگر یہ تو بتاوٴ کہ ان کی پہچان کیا ہے۔؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے پرندے کے بچوں کے دھوکے میں ہی کھا جاوٴں۔“

الو نے شیخی بگھارتے ہوئے جواب دیا۔ ”بھلا یہ بھی کوئی مشکل بات ہے۔ میرے بچے سب پرندوں کے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ ان کے چمکیلے پر دیکھ کر تم ایک ہی نظر میں پہچان جاوٴ گے اور۔“

بہت مدت پہلے دور دراز کے ایک ملک میں یہ قاعدہ تھا کہ اس ملک کے لوگ ہر سال اپنا بادشاہ تبدیل کرتے تھے۔جو بھی بادشاہ بنتا وہ ایک عہدے نامے پر دستخط کرتا کہ اس کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد وہ اس عہدے سے دست بردار ہو جائے گا اور اس ایک دور دراز جزیرے پر چھوڑ دیا جائے گا جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکے گا۔
جب ایک بادشاہ کا ایک سالہ دور حکومت مکمل ہو جاتا تو اسے ایک مخصوص جزیرے پر چھوڑ دیا جاتا جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتا۔ ا س موقع پر اس بادشاہ کو بہترین لباس پہنایا جاتا اور ہاتھی پر بٹھا کر اسے پورے ملک کا الوداعی سفر کر وایا جاتا جہاں وہ سب لوگوں کو آخری بار خیر باد کہتا۔ وہ بہت ہی افسوس ناک اور غم زدہ لمحات ہوتے اور پھر وہاں کے لوگ بادشاہ کو اس جزیرے پر ہمیشہ کے لئے چھوڑ آتے۔

arrownew e0ماں نے ان کا نام بھوری گوری اور کلورکھا تھا،بھوری اور گوری تو تھی ہی خوبصورت مگر کلو بھی اپنی رنگت کے برعکس بہت پیاری سی تھی،نیلی سبز آنکھیں،سیاہ چمکدار بال چہرہ پر دنیا جہاں کی معصومیت اور بڑی بڑی مونچھیں،ہر چیز کو بڑی غور سے دیکھنے والے کو بھی اس کے بھولپن پر پیار آجاتا،لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کہ،ایک دن بھوری اور گوری کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ سڑک پار کرتے ہوئے وہ ایک گاڑی کے نیچے آگئی۔دونوں بہنیں کلو کے غم میں کئی دن بے حال رہیں ان کے دکھ اورآنسو کلو کی زندگی نہ دے سکے۔ماں نے انہیں زندہ رہنے کے کئی گر سکھا دئیے تھے بلندی پر چڑھنا دیواروں کو پھلانگنا اور خطرے کے وقت بھاگنا کلو کے بعد دونوں بہنیں ایک دوسرے کا زیادہ خیال رکھنے لگی تھیں جہاں گوری جاتی بھوری بھی پیچھے پیچھے پہنچ جاتی۔