Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


Hairat hy

ارشد صاحب  لاٹھی پر دونوں ہاتھ ٹکائے اتنی دیر سے بولے جارہے تھے۔ اچانک سعیدہ خاتون کے منہ سے نکلا۔ ’’حیرت ہے!‘‘

’’یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ میں اتنی دیر کیا کہے جارہے ہوں  اور تم نے جواب میں یہ کیا کہا۔ حیرت ہے۔ کس بات پر حیرت ہے۔‘‘ ارشد صاحب کہتے کہتے جھلا اٹھے۔ وہ کافی دیر سے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے ۔ ہمیشہ کی طرح آج سعیدہ خاتون نے ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔

******************

’’یہ گملہ کس نے توڑا ہے؟‘‘ ارشد  آفس سے آتے ہی گرجا۔گیارہ سالہ صائم دوڑا چلا آیا۔

’’باباوہ کل ذیشان آیا تھا ناں۔ اس نے پاؤں مار کر گملہ گرا دیا تھا۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ ‘‘ صائم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔

Basta

بلّو اسکول سے نکلا، تو سخت گرمی تھی۔ سورج لگتا تھا جیسے عین سڑک کے اوپر اتر آیا ہے۔گرمی کی چھٹیاں ہونے میں ابھی کچھ دن باقی تھے… اوپر سے گھر جانے والی سڑک بھی سیدھی اور سپاٹ تھی۔ پورے راستے میں کوئی درخت نہ سایہ! بلو اسی طرف جانے والی لڑکوں کی ایک ٹولی کے ساتھ گھر جایا کرتا تھا۔ آج بھی انہی کے ساتھ تھا۔ کئی بار اس نے اپنی امی سے سائیکل کی فرمائش کی تھی۔ مگر سڑک پر ٹریفک کا جو برا حال تھا، اسے دیکھتے ہوئے تیسری جماعت کے بچے کو کون سائیکل پر اسکول جانے دیتا؟

ہر بار جواب ملتا کہ پانچویں جماعت میں پہنچو گے، تو سائیکل ملے گی۔ ویسے بلو کو سائیکل چلانی اچھی طرح آتی تھی۔ بازار میں اس کے سائز کی دو پہیوں والی سائیکلیں بھی موجود تھیں۔ مگر اس کی سنتا کون، ہر بار یہی جواب ملتا کہ پانچویں سے پہلے سائیکل نہیں ملے گی۔

محنت کی کمائی

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کہیں ایک خوشحال شخص رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ ماں کے ناز و نعم میں پلا بڑھا  یہاں تک کہ جوان ہو گیا۔ نہ کوئی ہنر ، نہ ہی کسی کام کا تجربہ۔ اسے ایک ہی کام آتا تھا اور وہ تھا باپ سے چھپا کر ماں کے دیئے ہوئے پیسوں سے کھیل کود اور مستیاں کرنا اور سڑکوں چوراہوں پر وقت گزارنا۔

اور ایک دن صبح کے وقت باپ نے اسے آواز دیکر اپنے پاس بلایا اور کہا: بیٹے اب تم بڑے ہو گئے ہو اور خیر سے جوان بھی ہو۔ آج سے اپنی ذات پر...........

غلام ہندوستان سے آزاد پاکستان تک

(جناب مصطفی صادق کا وہ تاریخی مضمون جس پر انہیں تحریک پاکستان کے ایک مجاہد کی حیثیت سے گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرایا گیا)

(حصہ  اول)

پاؤں سے خون رس رہا تھا، سر میں باریک باریک پھنسیاں، ذرا سا کھجلاؤں تو انگلیاں خون سے بھر جاتیں، کپڑے میلے کچیلے بلکہ گدلے، اس لئے کہ کم و بیش چھ ہفتے اس عالم میں گزر گئے

بادشاہ اور فقیر

بادشاہ عیش و آرام میں مست ہو کر کہہ رہا تھا:

میرے لیے دنیا میں اس وقت سے اچھا اور کوئی وقت نہیں ہے۔ نہ تو اس وقت اچھے بُرے کی فکر ہے نہ کسی کا غم!

محل کے نیچے ایک فقیر سردی میں لیٹا ہوا تھا۔ اس نے بادشاہ کی باتیں سن لیں اور پکار کر کہا!

اے بادشاہ! تیری شان وشوکت کا مقابلہ دنیا میں کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ میں نے مانا کہ تجھ کو کوئی غم نہیں ہے۔ مگر کیا ہمارا غم بھی نہیں ہے (یعنی ہم جیسے ننگے بھوکوں کی بھی فکر نہیں ہے)!

بادشاہ نے فقیر کی باتیں سن لیں۔ اس کے دل پر اثر ہوا۔ ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی نکالی اور کھڑکی سے باہر لٹکا کر کہا۔ اے درویش اپنا دامن پھیلا۔ فقیر نے جواب دیا میرے بدن پر کپڑے ہی نہیں ہیں، دامن کہاں سے لاؤں بادشاہ کو اس کی غریبی پر بہت رحم آیا۔ ایک قیمتی لباس اور اشرفیوں کی تھیلی

غلام ہندوستان سے آزاد پاکستان تک

(جناب مصطفیٰ صادق صاحب  کا وہ تاریخی مضمون جس پر انہیں تحریک پاکستان کے ایک مجاہد کی حیثیت سے گولڈمیڈل کا حقدار ٹھہرایا گیا)

(آخری حصہ)

آج جب میں یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں، ان اذیت ناک لمحوں کو بیتے کم و بیش 45 سال گزر چکے ہیں اور اسی مرقی پنجاب میں جہاں ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے آئے دن قتل و غارت گری اور دہشت و بربریت کی ایسی لرزہ خیز وار داتیں رونما ہو رہی ہیں جن کا علم ہونے پر ہر شریف انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

 بیربل کی دانشمندی

          Print

اکبر بادشاہ کے  نورتنوں میں سے ایک راجہ بیربل کی ذہانت ، حاضر جوابی ، کی کہانیاں اور لطیفے بہت مشہور ہیں۔ بیربل کی دانشمندی نے بیربل کے کردار کو افسانوی بنا دیا۔

اکبر اور بیربل سے متعلق ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ روایت کے مطابق ایک رات کو جب بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چار پائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا۔ بھائی یہ بتاؤ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا