صرف ایک ہنر!

مجھے اس کے کہے گئے الفاظ آج بھی من و عن یاد ہیں۔ ’’اب اسے ہی دیکھ لو! ابھی پندرہ ہی کی ہوئی ہے کہ شادی کی ڈیٹ بھی طے ہو گئی۔ میں کل میٹرک کی مارک شیٹ لینے جارہی ہوں اور یہ شادی کی تیاری کرنے!‘‘ وہ ہنس پڑی اور پھر بولی۔ ’’اگر یہ شہر میں ہوتی تو اپنا مستقبل  سنوارنے کا سوچتی نہ کہ بچے پالنے کے بارے میں!‘‘ وہ صرف بولتی تھی یہ جانے بغیر کہ اس کے کہے گئے الفاظ کس کے دل پر طوفان ڈھا رہے ہیں۔ اور ہم۔۔۔اس کے فیشن اور بے باک لہجے سے مرعوب اسے سنتے رہتے تھے۔’’کیوں زینب! میں ٹھیک کہ رہی ہوں ناں!‘‘ اس کا مسکراتا اور کچھ جتاتا ہوا لہجہ۔۔۔ میں بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔

جس رات وہ مارک شیٹ لے کر اور میں جہیز کی شاپنگ کر کے شہر سے واپس آئی تو رات دیر تک میری آنکھوں میں نیند نہ اتری۔ ’’ٹھیک ہی تو کہ رہی ہے رانیہ۔ شادی کے بعد کون سا میری زندگی بدل جانی ہے اور پھر میرے مستقبل کو سنوانے کی پروا بھی کسے ہے۔۔‘‘

اورکچھ ہی دن بعد میں سب کچھ بھول بھال پیا دیس سدھار گئی ۔ زبیر بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے۔ چھوٹے سے زمیندار تھے محنت کر کےحلال روزی کماتے۔ گھر میں بہت برکت تھی۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی لیکن کبھی کبھار رانیہ کی باتیں یاد آتیں اور شہر کی زندگی کے فائدے بھی۔ رانیہ کے نزدیک گاؤں کی عورت کی کوئی زندگی نہیں تھی۔

میری شادی کونو سال گزرتے پتہ بھی نہ لگا۔ وہ کل سے گاؤں آئی ہوئی تھی۔ اس کی پڑھائی مکمل ہو چکی تھی اور اب وہ ایک بڑے ہسپتال میں چائلڈ سپیشلسٹ تھی ۔میں اس سے ملنے گئی تو وہ ہمیشہ کی طرح اپنےپسندیدہ موضوع پر بول رہی تھی۔ گاؤں کی عورت! اسے اب بھی میری شادی کا افسوس تھا۔ ’’دیکھ لو زینب گاؤں میں ہے اور اسی لیے تین بچوں کی ماں بھی۔ ‘‘ وہ میری کزن سکینہ سے مخاطب تھی۔ ’’میرا تو ابھی دور دور تک شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ بھلا میری  بھی کوئی عمر ہے شادی کی ابھی تو میں خود بچی ہوں!‘‘ اور آخر میں ہمیشہ کی طرح وہ خود ہی ہنس پڑی۔

وہ چلی گئی لیکن اسکی باتوں نے مجھے بہت دنوں تک ڈسٹرب کیے رکھا۔  جب بھی تائی امی میرے گھر آتیں مجھے لگتا اب رانیہ کی شادی کا کارڈ ضرور دیں گی لیکن مزید سات سال گزر گئے۔

 ایک دن تائی امی کا فون آیا کہ رانیہ آئی ہوئی ہے اور اسکی شادی کی تاریخ بھی طے کرنی ہے تم بھی آ جاؤ۔میں فوراََ پہنچ گئی۔  رانیہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ وقت تو جیسے اس پہ ٹھہر ہی گیا تھا۔ خوبصورت تو وہ پہلے بھی تھی اب اور زیادہ نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ میں ایک بار پھر اند ر ہی اندر پچھتاووں میں گھر گئی۔

’’یہ تمہاری بیٹی  مریم ہے ناں!‘‘ چائے کا کپ مریم کے ہاتھ سے لے کر وہ مجھ سے پوچھنے لگی۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’ماشاءاللہ کتنی بڑی ہو گئی ہے۔ جب میں پچھلی بار آئی تب تو بہت چھوٹی سی تھی۔ ‘‘

’’ہاں بھئی ! تم بھی تو اتنے عرصے کے بعد آئی ہو۔ اور لڑکیوں کے بڑے ہونے کا کب پتہ چلتا ہے میرے بجائے سمیہ آپا نے جواب دیا۔’’اٹھارہ سالہ بیٹی کی ماں زینب ۳۳ سال کی! کیا بات ہے!  زینب جب تمھیں دیکھتی ہوں افسوس ہی ہوتا ہے خدا کےلیے مریم کو کم از کم 25 سے اوپر کا ہونے دینا پھر اس کی شادی کرنا۔‘‘ رانیہ کہ رہی تھی لیکن میں مسکرا بھی نہ سکی تھی۔

یہ ایک بوجھل سی شام تھی جب تائی اماں اچانک چلی آئی تھیں۔ انہوں نے روتی آنکھوں کے ساتھ جو خبر سنائی وہ ہم سب پر بم بن کر گری تھی۔ رانیہ کو طلاق ہو گئی تھی شادی کے صرف تین سال بعد! تائی اماں بتا رہی تھیں ۔’’رانیہ جاب چھوڑنے پر راضی نہ تھی۔ ہم نے اسے بار بار سمجھایا کہ گھر سب سے پہلے ہوتا ہے۔ جاب تو اس کے میاں کی بھی بہت اچھی ہے پھر وہ خود کہ رہا ہے کہ میں تمھیں ہر سہولت دے سکتا ہوں تم بس گھر کو ٹائم دو اور بیٹے کی تربیت میں محنت کرو پر رانیہ۔۔۔ ہائے میری بے وقوف بیٹی! رانیہ! میں کہاں جاؤں تو نے مجھے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔‘‘ تائی اماں رو رو کر ہلکان ہو گئیں تھیں اور سب انہیں سنبھالنے میں مصروف تھے اور میں سکتے میں کھڑی ایک ہی سوچ میں گم تھی۔ میری زندگی جلد شادی کے پچھتاووں اور افسوس میں کڑھتے ہوئے گزر گئی اور رانیہ  نے اناکے زعم میں اپنے ہی آنگن میں کیکر اگا لیے۔ عورت شہر کی ہو یا گاؤں کی،صرف ایک ہنر اس کو کامیاب بنادیتا ہے۔ خوش رہ کر زندگی سے سمجھوتہ کرلینا۔۔۔اور ہم دونوں ہی بے ہنر رہے تھے!

یاد ماضی میں جو آنکھوں کو سزا دی جائے

اس سے بہتر ہے کہ ہر بات بھلا دی جائے

لاؤں کیسے میں وہ واپس، سال  مہینے لمحے

کیا یہ ممکن ہے کہ ماضی کو صدا دی جائے

اب نہ اداسی کو لہجوں میں پناہ دی جائے

اب نہ انا کو کبھی دل میں جگہ دی جائے


{rsform 7}