arrownew e0ماں نے ان کا نام بھوری گوری اور کلورکھا تھا،بھوری اور گوری تو تھی ہی خوبصورت مگر کلو بھی اپنی رنگت کے برعکس بہت پیاری سی تھی،نیلی سبز آنکھیں،سیاہ چمکدار بال چہرہ پر دنیا جہاں کی معصومیت اور بڑی بڑی مونچھیں،ہر چیز کو بڑی غور سے دیکھنے والے کو بھی اس کے بھولپن پر پیار آجاتا،لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کہ،ایک دن بھوری اور گوری کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ سڑک پار کرتے ہوئے وہ ایک گاڑی کے نیچے آگئی۔دونوں بہنیں کلو کے غم میں کئی دن بے حال رہیں ان کے دکھ اورآنسو کلو کی زندگی نہ دے سکے۔ماں نے انہیں زندہ رہنے کے کئی گر سکھا دئیے تھے بلندی پر چڑھنا دیواروں کو پھلانگنا اور خطرے کے وقت بھاگنا کلو کے بعد دونوں بہنیں ایک دوسرے کا زیادہ خیال رکھنے لگی تھیں جہاں گوری جاتی بھوری بھی پیچھے پیچھے پہنچ جاتی۔

 

 

 

شروع شروع میں محلے والوں نے ان کا بہت خیال رکھا بچے ان کو گود میں لئے پھرتے لوگ دودھ کے پیالے بھر کر رکھ دیتے اور کبھی ہڈیاں اور گوشت بھی ڈال دیتے مگر بھوری اب اس یکسانیت سے اکتانے لگی تھی۔موقع دیکھ کر وہ دبے پیروں گھروں میں پہنچ جاتی،جس چیز پر ن

 

ظر پڑنی اس میں منہ ماردیتی آہستہ آہستہ دم ہلائے دالا نوں اورکمروں میں گھومتی پھرتی۔مرزا صاحب کے کمرے میں بچھا نرم ملائم قالین اسے بہت پسند تھا اور شہروز کے کمرے میں گدے دار صوفہ بھی اسے اچھا لگتا تھا جب کبھی موقع ملتا نظر بچا کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی،دم اپنے گرد لپیٹ کر آنکھیں بند کرلیتی ،اسے یوں محسوس ہوتا کہ دنیا میں سکون ہی سکون پھیلا ہوا ہے،نرم صوفہ اس کے بالوں کے ہم رنگ تھا اس لئے جب ہر چیز سے بے نیاز آنکھیں مونڈے صوفے پر برا جمان ہوئی تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا وہ تو جب کوئی اس پر بیٹھنے ایک کوشش کرتا تو معلوم ہوتا کہ بھوری اس پر آرام فرماہے،پھر تو اس کی خیر نہ ہوتی ہر طرف سے لعن طعن ہوتی اور بھوری کو دم دبائے بھاگنے میں ہی عافیت نظر آتی۔گوری نے اسے بہت سمجھایا کہ خطروں سے کھیلنے والی یہ عادت چھوڑ دے کسی دن نقصان اٹھائے گی مگربھوری جواب میں اسے بزدل کہا کرتی،تم ہو ہی ڈرپوک خطروں کا سامن کرنے میں ہی تو زندگی کا اصل مزہ ہے ایک دن بھوری نے جھنجھلا کر جواب دیا۔میں ایک بہن کھوچکی ہوں اب تمہیں کھونا نہیں چاہتی تمہیں سمجھاتی ہوں اور تم ناراض ہوجاتی ہو“گوری دکھی لہجے میں بولی۔اچھا بھئی اب رونہ دینا،بہت چھوٹا سا دل ہے تمہارا آئندہو کوشش کروں گی۔“بھوری جلدی سے بولی مبادا گوری رو پڑے،لیکن اگلے دن گوری سے مخاطب تھی،گوری بنٹی کے گھر سے بڑے مزے کی خوشبو آئیں آرہی ہیں چل کر دیکھنا چاہے کیا کچھ پک رہا ہے۔“جواباً گوری نے اسے گھور کر دیکھا اور بھوری کو خاموش ہونا پڑا۔بنٹی کی دادی نے دونوں بہنوں کے لئے دودھ کا پیالہ بھر کر رکھوا دیا۔دودھ پی کر گوری نے شکر ادا خدا کا شکر ادا کیا جسم پھیلا کر انگڑیائی لی،نیچے سے مونچھیں صاف کیں اور بدر صاحب کی گاڑی کے نیچے سستانے کو چل دی،بھوری نے بھی تقلید کی تھوڑی دیر بعد گوری تو نیند کی وادیوں میں اُتر گئی مگر بھوری جاگتی رہی۔موقع غنیمت جان کر وہ خراماں خرماں بنٹی کے گھر کی جانب چل دی،دروازہ ذرا سا کھلا تھا دبے پاؤں صحن عبور کرتے ہوئے اس کی نگاہ بنٹی کی دادی پر پڑی جو نماز پڑھ رہی تھیں،اب اس کا رخ باورچی خانے کی جانب تھا باورچی خانے کے باہر برآمدے میں پڑی کھانے کی میز پر رکھے ڈونگوں سے آشتہا آمیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں بھوری زقند بھر کر کھانے کی میز پر چڑھ گئی۔آہا رس ملائی ا س کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے کھلے ڈونگے میں منہ ڈال دیا،روٹی بیلتے ہوئے بنٹی کی امی کی نگاہ جو باہر اٹھی تو بھوری کی حرکت پر وہ چلا اٹھیں اس وقت ان کے ہاتھ میں بیلن تھا غصے میں وہی مارا مگر بھوری بھی ایک کائیاں تھی جھکائی دے کر بھاگی،شور سن کر بنٹی اور بچے کمرے سے نکل آئے اور بھوری کے پیچھے دوڑے،دروازہ پار کرنے سے پہلے دادی جان کی چھڑی بھوری کو لگ چکی تھی وہ ذرا سا لنگڑاتی ہوئی اپنی پناہ گاہ تک پہنچی۔بچوں کا شور سن کرگوری جاگ چکی تھی،بھوری کو لنگڑاتے اور ہانپتے ہوئے دیکھ کر وہ ساری بات سمجھ چکی تھی،بن بلائے مہمان کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے میری بہن گوری کی بات سن کر بھوری صرف کراہ کر رہ گئی۔ (بشکریہ اردو پوائنٹ)