ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ کے دِل میں یہ خیال آیا کہ کتنا اچھا ہو اگر مجھے یہ معلوم ہو جایا کرے کہ :
۱۔ صحیح کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
۲۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے سخت ضرورت ہے ؟
۳۔ اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے ؟
دل میں خیال آتے ہی بادشاہ نے اپنی پوری سلطنت میں اعلان کرا دیا کہ جو شخص بادشاہ کے ان تین سوالوں کے مطمئن کر دینے والے جواب دے گا، اس کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔
سلطنت کے بڑے بڑے عالم و فاضل، شاعر و ادیب، فلسفی اور ذہین و عقلمند لوگ بادشاہ کی خدمت میں اپنے اپنے جواب لے کر حاضر ہوئے، لیکن کوئی بھی شخص بادشاہ کو اپنے جوابات سے مطمئن نہ کر سکا۔ آخر کار بادشاہ نے طے کیا کہ وہ اُس بزرگ درویش کی خدمت میں حاضری دے گا، جو ایک سُنسان جنگل میں رہتا ہے اور صرف عام آدمیوں سے ہی ملاقات کرتا ہے۔
بادشاہ نے اُس درویش سے ملاقات کرنے کی غرض سے عام آدمیوں والے کپڑے پہنے اور اُس کی معمولی سی جھونپڑی سے کچھ دور ہی اپنے گھوڑے سے اُتر پڑا اور اپنے سپاہیوں کو چھوڑ کر اُس سے ملنے کے لیے اکے لیے چل دیا۔
جب بادشاہ جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس وقت وہ درویش اپنی جھونپڑی کے سامنے پڑی ہوئی زمین کی گُڑائی کر رہا تھا۔
بادشاہ کو دیکھتے ہی اُس نے اپنی عادت کے مطابق پہلے سلام کیا اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
بادشاہ نے درویش کی خدمت میں بڑے ادب سے عرض کیا۔
’’اے بزرگ درویش! میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کے جواب لینے آیا ہوں۔ اور وہ یہ ہیں :
۱۔ صحیح کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
۲۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے بہت سخت ضرورت ہے ؟
۳۔ اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے ؟
درویش نے بادشاہ کے تینوں سوال بہت غور سے سنے لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ پھر زمین گوڑنا شروع کر دی۔
آپ تھک گئے ہوں گے، لائیے پھاؤڑا مجھے دے دیجیے۔ تھوڑی دیر آپ کا کام میں کروں گا۔ ‘‘ بادشاہ نے درویش سے پھاؤڑا لیتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ۔ ‘‘ درویش نے یہ کہہ کر پھاؤڑا بادشاہ کو دیا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔
جب بادشاہ دو کیاریاں گوڑ چکا تو اس نے پھر اپنے سوال دوہرائے، لیکن درویش نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا بلکہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور بادشاہ سے پھاؤڑا لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے صرف اتنا کہا۔
’’ اب تم دَم بھر آرام کرو اور مجھے تھوڑا کام کرنے دو۔ ‘‘
لیکن بادشاہ نے درویش کو پھاؤڑا نہیں دیا اور زمین کی گڑائی کرتا رہا۔ اِس طرح وقت گزرتا گیا۔ دھیرے دھیرے شام ہو گئی۔ انجام کار بادشاہ نے زمین پر آخری پھاؤڑا مارتے ہوئے کہا۔
’’بزرگ درویش! میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کے جواب لینے آیا تھا۔ اگر آپ میرے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو کہہ دیجیے تاکہ میں اپنے گھر لوٹ جاؤں۔ ‘‘
بزرگ نے جواب دینے کی بجائے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور وہ بولے۔
’’دیکھو، کوئی آدمی اِدھر ہی بھاگا ہوا آ رہا ہے۔ آؤ دیکھیں، وہ کون ہے ؟‘‘
بادشاہ نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک آدمی جنگل سے جھونپڑی کی طرف بھاگا آ رہا ہے۔ وہ شخص اپنے ہاتھوں سے اپنا پیٹ دبائے ہوئے ہے اور خون اُس کے ہاتھوں کے نیچے سے بہہ رہا ہے۔ جھونپڑی کے قریب آ کر وہ شخص کراہتا ہوا بادشاہ کے پاس آیا اور زمین پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔
بادشاہ اور درویش نے اُس آدمی کے زخم کو غور سے دیکھا۔ اس کے پیٹ پر بڑا سا زخم تھا۔ بادشاہ نے جہاں تک ہو سکا اس کے زخم کو اچھی طرح صاف کیا اور اس پر اپنے رو مال اور درویش کے انگوچھے سے پٹی باندھی۔ بڑی مشکل سے اس کا خون بہنا بند ہوا۔
اب سورج ڈوب چکا تھا۔ ٹھنڈک بھی بڑھ چلی تھی۔ اس لیے بادشاہ نے درویش کی مدد سے زخمی کو جھونپڑے کے اندر پہنچا دیا اور اس کو چار پائی پر لٹا دیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ زخمی شخص سو گیا۔
بادشاہ بھی دِن بھر کی دوڑ دھوپ اور کام کی وجہ سے اِتنا تھک گیا تھا کہ وہ دہلیز پر ہی سو گیا۔
صبح جب بادشاہ کی آکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ چارپائی پر پڑا ہوا زخمی اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔
’’مجھے معاف کر دیجیے، میرے آقا۔ ‘‘ اُس زخمی نے بادشاہ سے التجا کی۔
’’میں تم کو نہیں جانتا اور جب جانتا نہیں تو معاف کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ بادشاہ نے جواباً کہا۔
’’ میں آپ کا دشمن ہوں۔ آپ نے میرے بھائی کو قتل کرا دیا تھا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ میں نے عہد کیا تھا کہ میں آپ کو قتل کر دوں گا۔ آج جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ درویش سے اکے لیے ملنے گئے ہیں تو میں نے طے کیا کہ آپ جب واپس لوٹیں گے تو میں آپ کو راستے میں ہی قتل کر دوں گا، لیکن پورا دن گزر گیا اور آپ واپس نہیں لوٹے تو میں آپ کا پتہ لگانے کے لیے اپنے ٹھکانے سے باہر آیا۔ جلد ہی آپ کے محافظ سپاہیوں سے میری مڈبھیڑ ہو گئی۔ انھوں نے مجھے پہچان لیا اور مجھے زخمی کر دیا۔ میں ان سے بچ کر بھاگ نکلا، لیکن اگر آپ میرے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو میں زیادہ خون نکل جانے کی وجہ سے مر جاتا۔ میں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن آپ نے میری جان بچا لی۔ اب اگر میں زندہ رہا تو ساری عمر غلام بن کر آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مجھے معاف کر دیجیے۔ ‘‘
بادشاہ دشمن سے اتنی آسانی سے صلح کر کے اور اُسے دوست بنا کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اُس کو معاف ہی نہیں کیا، بلکہ اُس سے یہ بھی کہا۔
’’میں اپنے خادموں اور شاہی طبیب کو تمہاری دیکھ بھال اور علاج کے لیے بھیج دوں گا اور تمہاری جائیداد بھی واپس کر دوں گا۔ ‘‘
زخمی آدمی سے رخصت ہو کر بادشاہ جھونپڑی سے باہر آیا اور درویش کو اِدھر ادھر دیکھنے لگا کیوں کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔
درویش باہر اپنے گھٹنوں پر جھُکا ہوا ان کیاریوں میں بوائی کر رہا تھا جو ایک روز پہلے گوڑی اور بنائی گئی تھیں۔
بادشاہ درویش کے پاس پہنچا اور بولا۔
’’بزرگوار! میں آخری بار اپنے سوالوں کے جواب کی درخواست کرتا ہوں۔ ‘‘
’’تم جواب پا چکے ہو، لیکن شاید تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ خیر میں تفصیل سے بتاتا ہوں۔ اگر تم نے کل میری بزرگی پر ترس کھا کر ان کیاریوں کو میرے لیے گوڑا نہ ہوتا اور اپنے راستے چلے گئے ہوتے تو وہ آدمی تم پر حملہ کر دیتا، اس لیے وہ وقت بہت اہم تھا جب تم کیاریاں گوڑ رہے تھے۔ میں بہت اہم آدمی تھا اور میرے ساتھ نیکی کرنا سب سے اہم کام تھا۔
بعد کو جب وہ آدمی بھاگ کر ہم لوگوں کے پاس آیا تو وہ بڑا اہم وقت تھا کیونکہ تم اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اگر تم اس کے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے وہ اہم آدمی تھا اور جو کچھ تم نے اُس کے ساتھ کیا وہ بہت اہم کام تھا۔
اس لیے یاد رکھو کہ ایک ہی وقت بہت اہم ہے اور وہ ہے ’’اب‘‘ یعنی موجودہ وقت۔ اس لیے کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں کوئی موقع اور کوئی طاقت حاصل رہتی ہے۔
’’سب سے اہم آدمی وہ ہے جس کے ساتھ تم ہو، اِس لیے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ پھر کبھی اُس سے معاملہ پڑے گا یا نہیں …
اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس کے ساتھ نیکی کی جائے، کیوں کہ انسان کو اسی مقصد سے یہ زندگی عطا ہوئی ہے۔‘‘
اِتنا کہہ کر درویز پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔