’’قال اللہ تعالی کل من علیھا فان ویبقی ذوالجلال والاکرام ۔ وقال تعالی کل نفس ذائقہ الموت۔‘‘
میں اس وقت بہت کرب سے گزررہاہوں۔ بڑے صدمہ کی کیفیت ہےکہ ایک بہت بہترین ساتھی ، میرا دوست لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکن ،جس نے ایک اللہ کے رسول کی نعتیں پڑھ کر دلوں کو گرمایا ۔ ساری دنیا میں تبلیغی نسبت کے ساتھ اللہ کے کام کو پھلایا ، آج اچانک وہ ہم سے بچھڑگیا۔جانا تو طے ہے ۔دنیا ایک دھوکا ہے ۔جانا ایک حقیقت ہے۔زندگی ایک سراب ہے ۔ پانی کا ایک بلبلہ ہے۔موت ایک اٹل ہے۔لیکن ایسے اچانک کوئی اپنا قریبی بچھڑ جائیں تو سارا وجود لرز اٹھتا ہے۔ یوں جیسے زندگی ایک بہت بڑا جھٹکا کھا کر لڑکھڑائی ہو۔ اللہ سنبھال تو دیتا ہے ۔ جنید جمشید ایک بہترین انسان تھا ۔میری اسکی رفاقت 20 سال کی ہے۔میں نے ایسے اخلاق والے بہت کم دیکھے۔آج سےبیس سال پہلے میرے سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔
آواز بند تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوا ن بیچ پر ڈانس کررہا ہے اور اسکے چاروں طرف لڑکیاں ناچ رہی ہیں ۔تو میرے جی میں آیا کہ اس نوجوان کو کیسے ہدایت ملے گی اس لحاظ سے نہیں بلکہ اللہ تو قادر ہے۔اس لحاظ سے کہ کہ کتنے غلط ماحول میں ہے اس تک کون پہنچے گا ۔اس کو کون اللہ کا پیغام سنائے گا۔خیال تو آکر گزر گیا۔1997 میں کراچی اجتماع کی بات ہے۔ ایک نوجوان نے کہا پاکستان کا مشہور گلوکار ہے جنید جمشید۔ اس سے آپ ملاقات کرلیں۔میں نے کہا لے آؤ ۔جب وہ اندر آیا تو وہ وہی نوجوان تھا جس کو میں نے ٹی وی اسکرین پر ناچتے دیکھا تھا ۔میں حیران اور خوش بھی ہوا۔پھر تعارف کرایا ۔پھر اس نے کہا آپکی باتیں مجھے ایسی لگ رہی ہیں کہ جیسے میرے زخموں پر کوئی مرہم رکھ رہا ہو۔اسکے بعد 4 ماہ کے لیے نکلاتو اس کا فون آیا بالا کوٹ سے۔’’ مولانا میں اس وقت ایک چھوٹی مسجد پرانی پھٹی ہوئی چٹھائی ہے جس پر لیٹا ہوا ہوں ۔جس سکون کو میں 5سٹار کے ہوٹل ، موسیقی کی محفلوں میں ڈھونٹتا تھاوہ سکون مجھے یہاں مل رہا ہے۔مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے ہواؤں میں اڑ جاؤں گا۔‘‘ میں نے کہا تمھاری روح کو اللہ کا سکون ملا۔ ۔اس دور میں وقت بھی لگاتا رہا اور گاتابھی رہا۔اس
نے کہا اگر آپ مجھے ایک بار کہتے کہ تم غلط کرہے ہو تو آپ سے کبھی نہیں ملتا۔آہستہ آہستہ پھر خود اللہ نے دل میں ڈال دیا اور 4 ماہ کے بعد تو سب کچھ چھوڑ دیا۔پھر اس پر حالات آئے تنگی آئی ۔مجھ سے کہا مولانا میرے گھر میں اتنے پیسے نہیں کہ ماں کے لئے دوا لاسکوں ۔اور Pepsiوالوں نے کروڑوں کی پیشکش کی لیکن میں نے معذرت کرلی۔پھر آخری وقت بھی اللہ کی راہ میں 10 دن کے لئے گیا تھا اور شہادت نصیب ہوئی۔
میں نے اخلاق میں جنید جیسے بہت کم دیکھے۔ اس نے توڑنے والا سے جوڑا۔ اس نے نہ دینے والوں کو دیا۔ زیادتی کرنے والوں کو معاف کیا ۔یہ اسکی عالیشان صفت تھی۔پھر 2007 سے 2016 تک 10 حج اکٹھے ہوئے۔ یہ J.J کے نام سے صرف حجاج کی خدمت کا جذبہ تھا۔
ایک بار رائیوینڈ میں زار و قطار رونے لگا .پھر کہا مولانا آپکو نہیں پتہ آپ نے مجھے کہاں سے نکال کر کہاں کھڑا کیا۔میں تسلی دیتا یہ اللہ نے بدلہ دیا۔اسکی وفات سے پوری دنیا کا نقصان ہوا اللہ ہم سب کو نصیب فرمائے۔اور اللہ جنید کی مغفرت فرما کر انکے درجات بلند فرمائیں۔آمین۔