وہ ساری شام مانوکو اپنے کمرے میں جانے موقع ہی نہیں ملا ۔ دو سالہ ببلو بار بار اس کے کمرے میں جاتا اور شیلف پر رکھے ہوئے ان ڈیکوریشن آئٹمز سے کھیلنا شروع کر دیتا جو مانو نے کل سٹال پر رکھنے تھے۔ مانو کے ذہن میں تھا کہ اس نے تمام چیزیں الماری میں رکھ چھوڑی ہیں اس لیے وہ بے فکری سے آپی سے گپیں لگاتی رہی اور کچن میں امی جان کا ہاتھ بٹاتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔

رات دس بجے جب وہ اپنے کمرے میں آئی تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ فرش پر شیشے کے چاروں گیند کرچی کرچی ہوئے پڑے تھے۔ یہ مصنوعی آبشار کے پتھروں میں رکھے جانے والے گیند تھے جو بٹن آن کرتے ہی گھومنے لگتے اور روشنیاں بکھیرنے لگتے۔ ان کی روشنیوں سے پانی بھی رنگ برنگا ہو کر دلکش  منظر پیش کرتا۔ لیکن  اب یہ چاروں گیند ٹوٹ چکے تھے۔ ان کے بغیرچاروں مصنوعی  آبشار کی رونق ادھوری تھی۔

’’اب کیا کروں؟ یہ کیا ہو گیا؟‘‘ مانو رونے کے قریب ہو گئی۔ آپی بھی جا چکی تھیں لیکن وہ ببلو کو ڈاٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ببلو میں تو اس کی جان تھی۔ پھر غلطی بھی اس کی اپنی تھی۔ اسے اتنی نازک  چیزیں یوں سامنے والے شیلف پر نہیں رکھنی چاہیے تھیں۔  

’’یاسر! بازار سے ایسے بالز مل سکتے ہیں؟ پتہ تو کرو پلیز‘‘ اس نے منت کے اس انداز میں کہا تو یاسر کو کمبل چھوڑ کر اٹھنا ہی پڑا۔  خوش قسمتی سے خان انکل کی گفٹ شاپ کھلی ہوئی تھی لیکن ان سے جو گیند ملے وہ صرف ایک ہی رنگ کی روشنی خارج کرتے تھے اور جب ان کو آبشار کے بیچ رکھا گیا تو وہ  سائز میں کچھ چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھوم بھی نہ سکے۔ اب تو مانو کی پریشانی سوا نیزے پر پہنچ چکی تھی۔ ساری رات وہ صحیح طرح سو بھی نہ سکی۔

۔۔۔۔۔۔

صبح جب وہ یونیورسٹی پہنچی تو خوب چہل پہل تھی۔ اس کی سب دوستوں نے سٹالز لگائے تھے ۔ مانو نے ابھی اپنا سٹال سیٹ کیا اور کرسی پر بیٹھ کر اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔ اب اس کو بےچینی نہیں ہورہی تھی کیونکہ اس نے ایک بڑا فیصلہ کر لیا تھا۔

’’واۂ! یہ پیس کتنا پیارا ہے۔ اس کی کیا پرائس ہے؟‘‘ کچھ جونئیر لڑکیاں اس کے سٹال کے گرد کھڑی تھیں۔

’’یہ 1200 کا ہے لیکن اس میں ایک خرابی ہے۔ اس کا اپنا بال ٹوٹ گیا ہے ۔ یہ میں نے نیا بال اس میں ڈالا ہے لیکن یہ گھومتا نہیں ہے۔ ‘‘ مانو بولتی چلی گئی۔

’’اوہ!‘‘ لڑکیاں افسوس  سے کہتی ہوئی اگلے سٹال پر چلی گئیں۔ ظاہر ہے نقلی گیندوالی آبشار کون لینا گوارا کرتا۔ ایک لمحے کو مانو کے دل کو کچھ ہوا لیکن پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔

دوپہر تک وہ صرف ایک ہی پیس بیچ پائی یا کچھ چھوٹی موٹی پنیں اور کیچر جس میں اس کا کوئی خاص منافع نہیں تھا۔ وہ ایک پیس بھی ایک فارنر لڑکی لے گئی جس کو گیند کے گھومنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بس اس کو آبشار کا بہتا پانی اچھا لگا تھا۔

’’کوئی بات نہیں!  ہو سکتا ہے کچھ اور پیسز بھی بک جائیں ۔ ابھی کلچرل ویک میں دو دن اور ہیں۔ کم از کم میرا ضمیر تو مطمئن ہے کہ میں کوئی جھوٹا سودا نہیں کر رہی۔‘‘ اس نے احتیاط سے آرائشی آبشاروں کواپنی   الماری میں رکھتے ہوئے سوچا۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے ایک پیارا سا گفٹ باکس اٹھایا جو اس کے بیڈ پر پڑا ہوا تھا۔ امی جان اس کے پیچھے ہی کمرے میں چلی آئی تھیں اور اب اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔

’’بیٹا کھولو تو سہی۔‘‘

جب اسے نے ریپراتار کر ڈبے میں جھانکا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہاں چار شیشے کے خوبصورت بالز پڑے اپنی رونق دکھا رہے تھے۔ اس نے جلدی سے الماری میں سے آبشاریں نکالیں اور بالز اس میں سجا دئے۔ بٹن دباتے ہی چاروں بالز گھومنے لگے اور رنگ برنگی روشنیاں بکھیرنے لگے ۔

وہ دوڑ کر امی جان کے گلے لگ گئی۔

’’یہ نازیہ نے بھیجے ہیں۔ یاسر نے اسے ساری بات بتا دی  تھی۔ ‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

’’یہ لو آپی سے بات بھی کر لو اور ببلو کی ’’شولی‘‘ یعنی سوری بھی سنو۔‘‘ یاسر نے ہنستے ہوئے موبائل اس کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

رات جب سو گئے تو مانو نے وضو کیا ، دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کی۔ ’’یا اللہ! اگر سچ بولنے سے اتنی خوشی ملتی ہے اور مسئلے حل ہو جاتے ہیں تو میں اب ہمیشہ سچ بولوں گی اورکبھی جھوٹ نہیں بولوں گی۔ ‘‘ یہ دعا مانگ کر مانو کو یوں لگا وہ رنگ برنگی روشنیاں اس کے دل میں بھی جگمگا رہی ہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ دونوں (بیچنے والا اور خریدنے والا) سچ بولیں اور ایک دوسرے پر حقیقتِ حال واضح کر دیں تو ان کے سودے میں برکت ہو گی اور اگر وہ دونوں نے جھوٹ بولا اور عیب چھپایا تو ان کے سودے سے برکت مٹا دی جائے گی۔‘‘ (صحیح البخاری)


 

{rsform 7}