سوال
جواب
یہ سوال بہت اہم ہے !واقعۃً یہ صورتحال اکثر وبیشتر دیکھنے میں آتی ہے جس سے افسوس ہوتا ہے درحقیقت آج کل یہ رواج پڑچکا ہے کہ اپنی تحریر وتقریر میں دینی شعائر ،علما ومدارس کو ہدف تنقید بنایا جائے جب تک ان پر زبان طعن دراز نہ کی جائے اپنی تحریر وتقریر کو ادھورا سمجھا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے میڈیا کے بعض حضرات مغرب اور اہل مغرب کی ھدایات وتعلیمات کی جگالی کرتے ہیں انکے منہ سے وہی بات نکلتی ہے جو عام طورپر مغرب کی طرف سے انکے منہ میں ڈالی جاتی ہے ۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر تنقید مثبت ہو اور واقعہً اصلاح کے جذبہ سے کی گئی ہو تو اسکی قدر بھی کرنی چاہئے اور اسکی روشنی میں اپنے کردار کا جائز ہ بھی لینا چاہئے حتی کہ اگر تنقید مغرب کی طرف سے بھی ہو تب بھی ہمارا موقف یہ ہے کہ اسے ٹھنڈے دل سے پڑھنا اور سمجھنا چاہئے اور کوئی خرابی ہو تو اسے دور کرنا چاہئے۔ اس طرف نظر نہ کی جائے کہ تنقید کس نے کی ہے ؟بلکہ یہ دیکھا جائے کہ کیا کہا ہے ؟تاہم اگر تنقید مثبت بھی نہ ہو اور نہ ہی اسکے پیچھے جذبہ ٗاصلاح کار فرما ہو جیسا کہ بعض کالم نگاروں کی تحریروں میں نظر آتا ہے کہ انکا مقصدمذاق اڑانا ،علماء پر پھبتیاں کسنا ،انہیں قدامت پسند قراردیکر فرسودہ اور پسماندہ قراردینا ہوتا ہے تو ایسی تنقید ہر گز قابل توجہ نہیں نیز اس کی بناء پر تنگ دل اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس دنیا میں معصوم طبقہ انبیاء کرام علیھم السلام کا گذراہے مگر دنیا میں ایسے بد طیینت افراد بھی گذرے ہیں جنہوں نے ان معصوم ہستیوں پر بھی زبان تنقید دراز کی ہے ۔یہ تو علماء حق کا ہر دور میں مزاج رہا ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والی تنقیدات کو سنا اور اس کے باوجود اپنے مشن اور کام میں لگے رہے ۔ایسی تنقیدات سے پریشان نہیں ہوئے بلکہ تلخ نشتر اور زہریلے تیر سہتے گئے اور منزل کی طرف چلتے رہے یہاں تک کہ اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئے وہاں ہر دو فریق حاضر ہونگے اور پتہ چل جائیگا کہ کس نے کیا کمایا اور کیا کھویا ؟