آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے:
یعنی جو کچھ بھی ہے وہ آپ کی ہی بدولت ہے اور اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ’’جوتیوں کا صدقہ‘‘ سے مراد ہے کہ آپ کے لئے یہ سب کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔اس کہاوت سے ایک لطیفہ منسوب ہے۔ ایک شخص نے کچھ دوستوں کی دعوت کی۔ جب سب مہمان دسترخوان پر بیٹھ چکے تو اُس نے نوکر کو الگ لے جا کر حکم دیا کہ سب کے جوتے بازار میں چپکے سے لے جا کر بیچ دے اور اس رقم سے کھانا خرید لائے۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔
لوگوں کے سامنے جب کھانا آیا تو انھوں نے اُس کی تعریفوں کے پل باندھ دئے۔
وہ شخص ہنستا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ’’حضور! بھلا میں کس لائق ہوں۔ یہ سب آپ کی ہی جوتیوں کا صدقہ ہے۔‘‘ جب کھانا ختم ہوا اور مہمان جانے لگے تو انھیں اپنے جوتے غائب ملے۔ اُس ستم ظریف نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ ’’بھائی! میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ سب آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔‘‘
آپ کا نوکر ہوں ، بینگن کا نہیں:
مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دربار کے نو رتنوں میں ایک بیربلؔ بھی تھے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک دن بادشاہ کے کھانے میں بینگن آئے۔ ان کو کھا کر شہنشاہ اکبر نے بینگن کی بہت برائی کی کہ ’’یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے،نہ صورت اچھی اور نہ ہی مزا۔‘‘ وہ جیسے جیسے بینگن کی برائیاں بیان کرتے جاتے خوشامدی درباری ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جاتے تھے۔ ان میں بیر بلؔ سب سے پیش پیش تھے کہ’’ حضور! بالکل صحیح فرمایا، بینگن سے زیادہ ناکارہ تو کھانے کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔‘‘ اس کے کچھ دن بعد پھر بینگن بادشاہ کے سامنے آئے لیکن اب کی بار اُس نے بینگنوں کی خوبیوں کے پل باندھ دئے۔بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں اس بار بھی بیربلؔ سب سے آگے تھے۔ بادشاہ نے اُن سے اِس منافقت کا سبب پوچھا تو بیربلؔ نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ ’’ جہاں پناہ! میں آپ کا نوکر ہوں، کوئی بینگن کا نوکر تھوڑی ہوں۔‘‘