جب شامِ سفر تاریک ہوئی ،وہچاند ہویدااور ہوا
منزل کی لگن کچھ اور بڑھی ، دل زمزمہ پیرا اور ہوا
جب کہر فضاوں پر چھائی ، جب صورتِ فردا دھندلائی
منظر منظر سےجلوہ فشاںوہگنبدِ خضرااور ہوا
ہر حال میں ان کی موجِ کرم تھی چارہ گرِ ادبار و الم
حد سے گزری جب تلخی ء غم ،لطفِ شہِ بطحا اور ہوا
جوں جوں وہحرم نزدیک آیا، کب نظارے کا یارا تھا
جھکتی ہوئی نظریں اور جھکیں ،سوچوں میں اجالا اور ہوا
اندازِ پذیرائی سے ہوا رنگ ان کی محبت کا گہرا
رحمت کے دریچے اور کھلے ، مدحت کا تقاضا اور ہوا
پہلے بھی اُس کیتابانیکچھ روئے زمیں پر کم تو نہ تھی
جب ثور کی منزل سے گزرا ، اُسماہکا چرچا اور ہوا
(حفیظ تائب)