رکن کی درجہ بندی: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
دین اسلام میں عقیدہ توحیدکے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوت کاہے، پہلی امتوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازم تھا کہ ان کے انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد اور نبی ورسول آئیں گے اور اس امت کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی پیدا ہوگا وہ امتی کہلائے گا لیکن نبی نہیں بن سکتا، حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ضرور قرب قیامت میں تشریف لائیں گے لیکن ان کی آمد کامقصد بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا پرچار ہوگا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی تشریف لاچکے ہیں اور اپنے دور نبوت میں وہ بنی اسرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری بھی سنا چکے ہیں جوکہ سورۃ الصف میں موجود ہے ’’کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے‘‘ جن کا نام نامی اسم گرامی ’’احمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے متعلق ارشاد فرمایا جو کتب احادیث میں موجود ہے کہ ’’میں حضر ت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں کا ثمر اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشارت بن کر آیا ہوں‘‘۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ دین اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اور اس کا اعلان پروردگار کریم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خود زبان نبوت سے کروادیا ہے کہ ’’ آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اپنا احسان پورا کردیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ہے ‘‘ (سورۃ المائدہ) اور ساتھ یہ بھی ایمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں سورۃ احزاب میں واضح طورپر موجود ہے کہ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیںہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔
در حقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اس امت پر پروردگار کریم کا احسان عظیم ہے کہ اس عقیدے نے اس امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے، پوری دنیا میں آج مسلمان عقائد وعبادات، احکامات اور ارکان دین کے لحاظ سے جو متفق ہیں وہ صرف اسی عقیدہ کی برکت ہے،مثلاً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں آج بھی وہی ہیں، رمضان المبارک کے روزے، نصاب زکوٰۃ، حج وعمرہ کے ارکان، صدقہ فطر وعشر کانصاب، قربانی کا طریقہ، ایام عیدین سب اسی طرح ہے جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا، یہ سب عقیدہ ختم نبوت کی وجہ سے ہے ورنہ اسلامی عقائد وارکان سلامت نہ رہتے، اسلامی عقائد وارکان کی سلامتی کا سب سے بڑا سبب عقیدہ ختم نبوت ہے چونکہ یہ عقیدہ اسلام کی عالمگیریت اور حفاظت کا ذریعہ ہے اس لیے دنیا ئے کفر شروع سے ہی اس عقیدہ میں دراڑیں ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ دین اسلام کی عالمگیریت اور مقبولیت میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکے اور کسی طرح اس کے ماننے والوں کے ایمان کو متزلزل کیا جاسکے، ان سازشوں کا سلسلہ دور نبوت میں سلیمہ کذاب سے شروع ہوا اور فتنہ قادیانیت تک آن پہنچا لیکن ہر دور میں قدرت نے ان سازشوں کو ناکام کیا ہے اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک یہ سازشیں ناکام ہوتی رہیں گی اور دین اسلام اور ختم نبوت کا پرچم سدا بلند رہے گا۔
فتنہ قادیانیت کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ ’’قادیان‘‘ سے ہوا اس کا بانی انگریز کا خود ساختہ ایجنٹ ’’مرزا غلام احمد قادیانی،، تھا جس نے انگریز رئوسا کو خوش کرنے کیلئے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تو کبھی نبوت کااعلان کیا، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو افضل کہا اور کبھی سب انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا، کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو کبھی ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کو قرآن مجید سے افضل قراردیا، کبھی قادیان حاضری کو حج وعمرہ سے افضل کہا تو کبھی اپنے گھر والوں اور ماننے والوں کو صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے افضل قراردیا، حتیٰ کہ اپنی بیویوں کو ’’امہات المومنین‘‘ اور ماننے والوں کو صحابہ قرار دیا (نعوذ باللہ)، الغرض اس سے جو ہوا اس نے کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتیوں سے جو ہوسکتا تھا انہوں نے خدا کے فضل سے کردکھایا۔
1930ء میں شیخ التفسیر امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر لاہور میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے پانچ سو سے زاید علماء کرام شریک ہوئے، استاذالمحدثین، محدث العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ بھی اس اجتماع میں شریک تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دوران خطاب عقیدہ ختم نبوت پر نہایت جامع بیان فرمایا اور پھر اس کے بعد فرمایا کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی تردید کے لیے اپنے شاگرد رشید، نواسہ پیغمبر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کرتاہوں اور تردید قادیانیت کا محاذ ان کے سپرد کرتا ہوں، سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو’’امیر شریعت ‘‘ کا لقب دیا گیااور تمام علماء کرام نے ان کے ’’دست حق پرست‘‘ پر بیعت کی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری حمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں فتنہ قادیانیت کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے استاد محترم کی خوب لاج رکھی اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کردیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 1934 ء میں ملتان کی مسجد سراجاں میں اپنے رفقاء کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد ایک غیر سیاسی جماعت ’’مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد صرف اور صرف عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ تھا، 1974ء میں ملک پاکستان معرض وجود میں آیا تو قادیانیت کا فتنہ پاکستان آ پہنچا، مرزا غلا م احمد قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے دریائے چناب کے کنارے چنیوٹ کے قریب ایک بڑے زمینی حصے کو کوڑیوں کے دام خرید لیا اور ’’ربوہ‘‘ کے نام سے اپنا اڈا قائم کرلیا، سوئے اتفاق پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ’’ظفر اللہ خان‘‘ قادیانی تھا چنانچہ قادیانیوں کے لیے ابتداء ہی سے اہم کلیدی آسامیوں اور عہدوں کا حصول آسان ہوگیا اور وہ سرعام اپنے جھوٹے نبی کے مشن کو پھیلانے لگے، مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے تمام مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا اور 1953ء میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلی اس تحریک میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت پیر مہر علی شاہؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا ظفر علی خانؒ، مولانا ابو الحسنات قادریؒ، حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور دیگر اکابر امت نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا، پورے ملک کے طوفانی دورے کیے اور عوام کو اس خطرناک فتنہ سے آگاہ کیا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان اکابر کی محنت کا نتیجہ تھا کہ 10 ہزار نوجوانوں نے لاہور کے مال روڈ کو اپنے خون سے سرخ کردیا اور جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، متاع عالم ایجاد سے پیارے، پدر، مادر، برادر، جان، مال و اولاد سے پیارے ان خوش بختوں نے جنگ یمامہ کی یاد تازہ کردی اور قادیانیت کی نیندیں حرام کردیں، حکومت وقت نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا لیکن درحقیقت یہ تحریک ہی 1974ء میں فتنہ قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
22 فروری 1974ء کو نشتر کالج کے ًطلبہ کا ایک گروپ ’’شمالی علاقہ جات‘‘ کی سیروتفریح کی غرض سے ملتان سے پشاور جانے والی گاڑی چناب ایکسپریس کے ذریعہ روانہ ہوا جب گاڑی ربوہ (چناب نگر) پہنچی تو مرزائیوں نے گاڑی میں مرزا قادیانی کا کفر والحاد پر مشتمل لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا جس سے طلبہ اور قادیانیوں میں جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی، 29 مئی 1974ء کو طلبہ چناب ایکسپریس کے ذریعے واپس آرہے تھے کہ گاڑی ربوہ ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو قادیانیوں نے طلبہ پر حملہ کردیا اور اتنا تشدد کیا کہ وہ خون میں نہا گئے جب گاڑی فیصل آباد پہنچی اور عوام نے نبی محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوائوں کو اس زخمی حالت میں دیکھا تو وہ برداشت نہ کرسکے اور قادیانیت کے خلاف تحریک کا آغاز ہوگیا، یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہر شخص ختم نبوت کا وکیل نظر آیا اور پورے ملک میں احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں کا سیلاب امڈ آیا، ختم نبوت کی برکت سے تمام مکتبہ فکر کے علماء کرام ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور اتفاق رائے سے مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا صدر محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور سیکرٹری جنرل علامہ محمود احمد رضویؒ کو منتخب کرلیا گیا، علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں تحریک چلی اس تحریک میں آپ کے ہمراہ مفتی محمودؒ، مولاناغلام غوث ہزارویؒ، مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، مولانا عبدالحقؒ، مولانا سید ابو ذر بخاریؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، مولانا خواجہ خان محمدؒ، مولانا عبیداللہ انور، آغا شورش کشمیریؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ، علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، سید مودودیؒ، مولانا عبدالقادر روہڑیؒ، نوابزادہ نصراللہؒ، مظفر علی شمسیؒ اور دیگر اہم راہنما شامل تھے، حکومت تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئی، قومی اسمبلی میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی نمایندگی مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبدالحقؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، پروفیسر غفور احمدؒ، چودھری ظہور الٰہی مرحوم اور دیگر کررہے تھے، مذکورہ حضرات نے شب و روز کی کوششوں سے وہ تمام لٹریچر جمع کیا جو خصوصی کمیٹی کے لیے ضروری تھا، شہداء ختم نبوت کا مقدس خون اور قائدین تحریک تحفظ ختم نبوت کی بے لوث قربانیاں رنگ لے آئیں، قومی اسمبلی نے مرزا ناصر پر 11 دن اور مرزائیت کی لاہوری شاخ کے امیر پر 7 گھنٹے مسلسل بحث کی، 7 ستمبر 1974ء کو وہ مبارک دن آ پہنچا جب قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر دن 4بج کر 35 منٹ پر قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قائدایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیا، عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس سلسلے میں آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا اور اس عظیم کامیابی پر حزب اقتدار وحزب اختلاف خوشی ومسرت سے آپس میں بغل گیر ہوگئے، آغا شورش کشمیریؒ، علامہ محمود احمد رضویؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، اور علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کہا کرتے تھے کہ مولیٰ ’’تیری ادا پر قربان جائیں کہ تونے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا فیصلہ کسی چوک اور چوراہے میں نہیں کرایا بلکہ پارلیمنٹ میں کروایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو دعویٰ نبوت کرے وہ دائرہ ا سلام سے خارج ہے قادیانی آج بھی پاکستانی قانون کے مطابق غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ، نماز، روزہ تم جیسا ہے پھر فرق کس بات کا ہے، پھر ہم کافر کیوں؟ اس کا واضح اور دو ٹوک جواب ان کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننا ہے اور حضور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی امتی کا دعویٰ نبوت کفر ہے اور اس کی نبوت کوتسلیم کرنا بھی کفر ہے، آئیے آج کے اس تاریخی دن ہم اس بات کا عہد کریں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کردیں گے، اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی قدر دان ہے وہ اس عمل پر یقیناً اپنی رضا اور جنت کی صورت میں نوازے گی۔  ختم نبوت زندہ باد …