ختم نبوت اسلام کا متفقہ، اساسی اور اہم ترین عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس اعتقاد پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سی بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ اپنی بدقسمتی سے وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بھی یک قلم خارج ہو جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی، غیر تشریعی، ظلی، بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ کافر، مرتد، زندیق اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر ایمان ’’عقیدۂ ختمِ نبوت‘‘ کہلاتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں کسی نبی کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ یہ رشد و ہدایت کے دو سرچشمے ہیں جو قیامت تک عالم اسلام کو سیراب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی مدعی نبوت کا آنا گمراہی ہے۔
مسلمانان عالم کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر اجماع اور عقیدہ جہاد 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اسلام دشمن طاقتوں بالخصوص انگریزوں کے لیے سوہان روح بنا ہوا تھا اور ہے۔ ان کی شدید خواہش تھی اور ہے کہ کسی طرح کوئی ایسا اہتمام ہو جائے کہ مسلمانوں کے دل سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت اور جہاد کی روح دونوں ختم ہو جائیں، اب چونکہ ایک نبی کے حکم میں ترمیم و تنسیخ دوسرے نبی کے ذریعے ہی سے ہوتی ہے، چنانچہ حکومت برطانیہ کی سرپرستی اور لالچ پر سیالکوٹ کی ضلع کچہری کے ایک منشی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ وہ گورداسپور (بھارت) کی تحصیل بٹالہ کے ایک پسماندہ گائوں قادیان کا رہنے والا تھا۔ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے خود کو عیسائیت اور ہندو مخالف مناظر کی حیثیت سے متعارف کروایا اور مسلمانوں کی جذباتی اور نفسیاتی ہمدردیاں حاصل کیں۔ پھر مجدد، محدث، امتی نبی، ظلی نبی، بروزی نبی، مثیل مسیح اور مسیح موعود کا دعویٰ کرتے ہوئے انجام کار باقاعدہ امرو نہی کے حامل ایک صاحب شریعت نبی ہونے کے اِدعا تک جا پہنچا۔ یعنی باقاعدہ نبی و رسول ہونے کا دعویٰ کیا، حتیٰ کہ اعلان کیا کہ وہ خود ’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے (نعوذ باللہ) پھر اس کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے کہا کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے مرزا قادیانی کی شکل میں دوبارہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کو بھیجا۔ مزید کہا کہ مرزا قادیانی خود ’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے نعوذ باللہ، جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں آیا، اس لیے ہمیں کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں، کیونکہ اب کلمہ طیبہ میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ سے مراد مرزا قادیانی ہے۔ قادیانی آنجہانی مرزا قادیانی کو ’’محمد رسول اللہ‘‘، اس کی بیوی کو ’’ام المومنین‘‘ اس کی بیٹی کو ’’سیدۃ النسائ‘‘ اس کے خاندان کو ’’اہل بیت‘‘ اس کے خاص مریدوں کو ’’صحابہ‘‘ اس کی نام نہاد وحی و الہامات کو ’’قرآن مجید‘‘ اس کی گفتگو کو ’’احادیث‘‘ اس کے شہر قادیان کو ’’مکہ‘‘، ربوہ کو ’’مدینہ‘‘ اور اس کے قبرستان کو ’’جنت البقیع‘‘ قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سب باتیں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بلکہ فاسق و فاجر مسلمان کے لیے بھی ناقابل برداشت ہیں اور اس کرۂ ارض پر کوئی بے حمیت مسلمان بھی ایسا نہیں جو کسی سے ایسی گستاخانہ باتیں سننا گوارا کرے۔ اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے خلاف قادیانیوں کی گستاخیوں اور ہرزہ سرائیوں کو اکٹھا کیا جائے تو کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے شان رسالت میں کی جانے والی بعض گستاخیاں ایسی ہیں جنھیں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتاہے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔‘‘ قادیانیوں کے کفریہ عقائد و عزائم کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974ء کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 106(2)اور260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظامِ حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ اسمبلی میں اس کے بیان کے بعد حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے قادیانی عقائد کے حوالے سے اُس پر جرح کی، جس کے جواب میں مرزا ناصر نے نہ صرف مذکورہ بالا تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ باطل تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت ،پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ انہیں ان کے عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا، بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کو کافر اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔
قادیانی پوری دنیا میں شور مچاتے ہیں کہ پاکستان میں ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔ ہمارے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ ہمیں آزادی اظہار نہیں ہے۔ وہ کبھی اقوام متحدہ سے اپیلیں کرتے ہیں، کبھی یہودیوں اورعیسائیوں سے دبائو ڈلواتے ہیں۔ حالانکہ ہم بڑی سادہ سی جائز بات کہتے ہیں کہ تم مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ نہ کہو۔ کلمہ طیبہ مسلمانوں کا ہے، تم اس پر قبضہ نہ کرو یعنی شراب پر زم زم کا لیبل نہ لگائو لیکن قادیانی اس سے باز نہیں آتے بلکہ الٹا اسلام کے نام پر اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کی تبلیغ و تشہیر کرتے ہیں۔
قادیانیوں کو شعائر اسلام کے استعمال اور اس کی توہین سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا، جس کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور اپنے مذہب کے لیے اسلامی شعائرو اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ اس سلسلہ میں تعزیراتِ پاکستان میں ایک نئی فوجداری دفعہ298/C کا اضافہ کیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/C : ’’قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے، کو کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‘‘
قادیانیوں نے اس پابندی کو وفاقی شرعی عدالت، لاہور ہائی کورٹ، کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا، جہاں انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بالآخر قادیانیوں نے پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی کہ انھیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچجو جناب جسٹس عبدالقدیر چودھری صاحب، جناب جسٹس شفیع الرحمن، جناب جسٹس محمد افضل لون صاحب، جناب جسٹس سلیم اختر صاحب، جناب جسٹس ولی محمد خاں صاحب پر مشتمل تھا، نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں اطراف سے دلائل و براہین دیے گئے۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے مفتی صاحبان نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرز کر رہ گئے۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی کے حقوق سلب ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ کے تاریخی فیصلہ ظہیرالدین بنام سرکار، (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور 298-C کے تحت سزائے موت کا مستوجب ہے۔ اس کے باوجود قادیانی آئین، قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خود کو مسلمان کہلواتے، اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے، گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتے، شعائر اسلامی کا تمسخر اڑاتے اور اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن، خلاف قانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے بعض اوقات لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔خود سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنے نافذ العمل فیصلہ میں لکھا:
’’یہ بات قابل غور ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قوانین، ایسے الفاظ اور جملوں کے استعمال کا تحفظ کرتے ہیں، جن کا مخصوص مفہوم و معنی ہو اور اگر وہ دوسروں کے لیے استعمال کیے جائیں تو لوگوں کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جو لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ پاکستان ایسی نظریاتی ریاست میں قادیانی جو کہ غیر مسلم ہیں، اپنے عقیدہ کو اسلام کے طوپر پیش کرکے دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند اور لائق تحسین ہے کہ دنیا کے اس خطے میں عقیدہ آج بھی ہر مسلمان کے لیے سب سے قیمتی متاع ہے، وہ ایسی حکومت کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا جو اسے ایسی جعل سازیوں اور دسیسہ کاریوں سے اسے تحفظ فراہم کرنے کو تیار نہ ہو۔ قادیانی اصرار کرتے ہیں کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر پیش کرنے کا لائسنس دیا جائے بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلام کی انتہائی محترم و مقدس شخصیات کے ساتھ استعمال ہونے والے القابات اور خطابات وغیرہ کو ان گستاخ غیر مسلموں (مرزا قادیانی اور اس کے خلیفوں) کے ناموں کے ساتھ چسپاں کیا جائے، جو مسلم شخصیات کی جوتی کے برابر بھی نہیں۔ حقیقتاً مسلمان اس اقدام کو اپنی عظیم ہستیوں کی بے حرمتی اور توہین و تنقیص پر محمول کرتے ہیں۔ پس قادیانیوں کی طرف سے ممنوعہ القابات اور شعائر اسلامی کے استعمال پر اصرار اس بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنے دیتا کہ وہ قصدا ایسا کرنا چاہتے ہیں جو نہ صرف ان مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کرنے بلکہ دوسروں کو دھوکہ دینے کے مترادف بھی ہے۔ اگر کوئی مذہبی گروہ (قادیانیت) دھوکہ دہی اور فریب کاری کو اپنا بنیادی حق سمجھ کر اس پر اصرار کرے اور اس سلسلے میں عدالتوں سے مدد کا طلبگار ہو تو اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ اگر قادیانی دوسروں کو دھوکہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تو وہ اپنے مذہب کے لیے نئے القابات وغیرہ کیوں وضع نہیں کر لیتے؟ کیا انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ دوسرے مذاہب کے شعائر، مخصوص نشانات، علامات اور اعمال پر انحصار کرکے وہ خود اپنے مذہب کی ریا کاری کا پردہ چاک کریں گے۔ اس صورت میں اس کے معانی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کا نیا مذہب، اپنی طاقت، میرٹ اور صلاحیت کے بل پر ترقی نہیں کرسکتا یا فروغ نہیں پاسکتا بلکہ اسے جعل سازی و فریب پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے؟ آخر کار دنیا میں اور بھی بہت سے مذاہب ہیں، انہوں نے مسلمانوں یا دوسروں لوگوں کے القابات وغیرہ پر کبھی غاصبانہ قبضہ نہیں کیا، بلکہ وہ اپنے عقائد کی پیروی اور اس کی تبلیغ بڑے فخر سے کرتے ہیں…… ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو، لازم ہے کہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘ (’’صحیح بخاری ‘‘ ’’کتاب الایمان‘‘، ’’باب حب الرسول من الایمان‘‘) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننے، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟ ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے علانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس ردعمل کے بارے میں سوچنا چاہیے، جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا علانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ’’رشدی ‘‘ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضورe کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر ؟ رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ علانیہ رسول اکرم ؐ کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘ ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوئوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں۔‘‘ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ئ)
آئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کے باوجود قادیانی تقریر و تحریر، جلسہ و جلوس، لٹریچر کی تقسیم اور اپنے اجتماعات منعقد کر کے اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرتے اور شعائر اسلامی کی توہین کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہیں انتظامیہ کی مکمل سرپرستی حاصل رہتی ہے۔ بہت کم افسران ایسے ہیں جو تعزیرات پاکستان میں موجود قادیانیوں کی خلاف اسلام سرگرمیوں پر پابندی کی دفعہ 298/C اور اس کی عدالتی تاریخ سے واقف ہوں۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ پورے پاکستان میں شاید ایک بھی افسر ایسا نہیں جس نے قادیانیوں کی طرف سے توہین رسالتe کے اجتماعی اور مسلسل ارتکاب پر سپریم کورٹ کے اس مذکورہ تاریخی فیصلہ کے مطالعہ کی زحمت گوارہ کی ہو جو پاکستان میں امن و امان قائم کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت قانون کی بھاری کتابوں میں تو موجود ہے مگر آج تک اس کے کسی ایک جز پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس سے بھر کر قانون کے ساتھ اور کیا شرمناک مذاق ہو سکتا ہے؟ حکومت اگر پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو وہ قادیانیوں کو آئین قانون اور عدالتی فیصلوں کا پابند کرے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔
|